جدہ: سعودی عرب کے معروف اخبار عرب نیوز نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب میں یونیورسٹی کے بعض طالبعلم دو سو ریال سے آٹھ سو ریال کی ادائیگی کرکے دوسروں سے اپنے مضامین اور مقالات تیار کرواتے ہیں۔

اس کے علاوہ بہت سے طالبعلم دوسروں کے تیار کردہ تحقیقی مقالات کی نقل کرکے اسے اپنے نام سے پیش کررہے ہیں۔

الجامعہ اسٹریٹ پر ایسے کئی مقامات ہیں، جہاں طالبعلموں کو ایسے لوگ مل جاتے ہیں، جو ان کے لیے اس طرح کی چیزیں تیار کرکے دیتے ہیں۔ یہ کام کرنے والوں میں سے زیادہ تر لوگ تارکین وطن ہیں۔

عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق طالبعلموں کے لیے مقالات تیار کرنے والوں میں سے زیادہ تر نے سائنس کے موضوعات پر مقالات تیار کرنے سے انکار کردیا، اس لیے کہ وہ اس میں مہارت نہیں رکھتے تھے۔ یہ لوگ زیادہ تر، بزنس مینجمنٹ، مارکیٹنگ، اکاؤنٹنگ، میڈیا، سائیکالوجی اور سوشیالوجی پر مقالات تیار کرتے ہیں۔

اس اسٹریٹ پر کام کرنے والے ایک سوڈانی نے بتایا کہ ایک سال میں تقریباً دو سو طالبعلم مقالات لکھنے کے لیے اُس سے رابطہ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عموماً طالبعلم مجوزہ نکات دیتے ہیں کہ ان کو ضرور اس تحقیق میں شامل کیا ہے۔ اس کو مکمل ہونے میں تقریباً ایک مہینے کا وقت لگ جاتا ہے۔

کنگ عبداللہ یونیورسٹی (کے اے یو) کے ایک طالبعلم عبدالرحمان السعید نے عرب نیوز کو بتایا کہ اس کے کچھ ساتھی طالبعلم اس طرح کے غیرقانونی عمل میں ملؤث رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’ایسے طالبعلموں کے پاس دلیل ہوتی ہے کہ وہ اپنے لیے تحقیقی مقالات اس لیے خریدنے پر مجبور ہیں کہ ان کے پاس اس کی تیاری کے لیے وقت میسر نہیں ہے۔ لیکن اب پروفیسروں نے اس طرح کی جعلی تحقیق کو پکڑنے کے لیے مختلف طریقے اپنائے ہیں، اور کئی طالبعلموں کو اس طرح کے کاموں پر سزا بھی دی گئی ہے۔‘‘

کنگ عبداللہ یونیورسٹی میں انگریزی زبان کے ایک پروفیسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ خریدے گئے یا نقل شدہ مقالوں کو پرکھنے کے کئی طریقے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ بعض طالبعلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل گریجویٹ سے تحقیقی مقالات خرید رہے ہیں، تاہم یونیورسٹی کے پروفیسروں کے پاس اس کو چیک کرنے کے اپنے طریقے موجود ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ میرے پاس ایک سافٹ ویئر پروگرام ہے، جس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ تحقیقی مقالہ اصلی ہے یا نہیں۔ کسی بھی معاملے میں میں ہمیشہ اپنے طالبعلموں کے ساتھ ان کے کام کے متعلق بات چیت کرتا ہوں، اس میں یہ سوالات بھی شامل ہوتے ہیں کہ انہوں نے یہ معلومات کہاں سے اکھٹا کیں اور کس طرح ان کا تجزیہ کیا۔

اس کے علاوہ میں ان کی تحقیق کو مزید بحث کے لیے پوری کلاس کے سامنے پیش کردیتا ہوں۔اس طرح سے مجھے یہ اشارہ مل جاتا ہے کہ اس طالبعلم نے خود تحقیق کرکے یہ مقالہ تحریر کیا ہے یا نہیں۔‘‘

کنگ عبداللہ یونیورسٹی میں اکنامک کے پروفیسر فاروق الخطیب کہتے ہیں کہ تجربہ کار اساتذہ عام طور پر اندازہ لگالیتے ہیں کہ کس طالبعلم نے اپنے کام کے بارے میں جھوٹ بولا ہے۔ کچھ طالبعلم دوسروں سے مقالات خرید کر پیش کرتے ہیں، کچھ دوسرے طالبعلموں کی نقل کرتے ہیں، جسے باآسانی پکڑا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی نے پروفیسروں کو اجازت دی ہے کہ وہ ایسے طالبعلموں کو سزا دیں جو خریدی گئی تحقیقات پیش کرتے ہیں۔ کچھ پروفیسروں نے جعلی تحقیقات کو خارج بھی کیا اور طالبعلموں کو فیل کردیا۔تاہم یہاں کچھ ناتجربہ کار پروفیسر ہیں، جو طالبعلموں کے کاموں کی مناسب جانچ پڑتال میں ناکام رہتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں