بوکوحرام کا حملہ۔ 100 افراد کی ہلاکت کا خدشہ

نائیجیریا کے ایک گاؤں پر ہوئے ایک ہفتے پہلے کے حملے میں زندہ بچ جانے والی خواتین۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
نائیجیریا کے ایک گاؤں پر ہوئے ایک ہفتے پہلے کے حملے میں زندہ بچ جانے والی خواتین۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

میڈوگوری، نائیجیریا: مشتبہ شدت پسند تنظیم بوکو حرام نے نائجیریا کے شمال مشرقی شہر میڈوگوری میں ایک گاؤں پر حملہ کیا ہے، جس میں کہ کم سے کم 100 افراد کی ہلاکتوں کا خطرہ ہے۔

یاد رہے کہ نائیجیریا میں دہشت گردی کے واقعات میں شہریوں کی ہلاکتیں بڑھتی جارہی ہیں۔

کچھ کمیونیٹی لیڈروں نے ریاست بورنو کے ضلع گوزا میں منگل کے روز ہونے والے حملے میں ہلاکتوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ چار سو سے پانچ سو تک بتائی تھی، اگرچہ دوردراز علاقوں سے مواصلاتی رابطے ناقص ہونے کی وجہ سے اس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کی جاسکی تھی۔

حالیہ حملے میں زندہ بچ جانے والے افراد نے بی بی سی کو بتایا کہ حملہ کرنے سے پہلے بوکو حرام کے کارکنوں نے گاؤں کے لوگوں سے کہا کہ وہ انہیں تبلیغ کرنے کے لیے آئے ہیں۔

حکام اور مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ہفتے کی شروعات میں ہی سلسلہ وار حملوں میں اب تک 200 افراد اپنی جان گنوا چکے ہیں۔

گوکہ ایک سال پہلے نائیجیریا میں نافذ کی جانے والی ہنگامی حالت کے دوران اب تک میڈوگوری اور اس کے ارد گرد کے علاقے ایسے حملوں سے محفوظ تھے، لیکن اب عام طور پر ملک کے دور دراز علاقے بھی ایسے حملے کی زد میں آتے جارہے ہیں۔

یاد رہے کہ اپریل میں بوکو حرام کی طرف سے اسکول کی دو سو طالبات کے اغوا کے بعد نائجیریا کی حکومت پر اندرونی اور بیرونی دونوں ہی جانب سے بوکو حرام کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔

نائجیریا کو ایک اسلامی ملک بنانے کا مطالبے کے ساتھ 2009ء کے دوران بوکو حرام نے نائجیریا کی حکومت کے خلاف پُر تشدد مہم شروع کی تھی، جس میں اس کے بعد سے اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

حالیہ حملے کے بارے میں اب تک موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق گزشتہ بدھ کی رات شدت پسند تنظیم بوکو حرام کے رکن میڈوگوری یونیورسٹی کے قریب ایک گاؤں میں پہنچے اور لوگوں سے کہا کہ وہ ایک جگہ جمع ہو جائیں۔

حملہ آوروں نے لوگوں سے کہا کہ وہ انہیں مذہبی تبلیغ دینے آئے ہیں، لیکن اچانک انہوں نے لوگوں پر گولیاں چلانی شروع کر دیں۔

حکام کے مطابق گاؤں میں داخل ہونے کے بعد مشتبہ شدت پسند زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ایک جگہ جمع کرنے کے لیے الگ الگ طریقے اپناتے رہےہیں۔

اس سے پہلے گزشتہ منگل کو بورنو ریاست کے اٹاگارا نامی گاؤں پر حملے کے وقت بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ گاؤں میں کچھ مسلح افراد فوج کی وردی پہنے داخل ہوئے، لوگوں نے خیال کیا کہ یہ فوجی ہیں اور اس سے پہلے اتوار کو ہونے والے حملے کے بعد اُن کی حفاظت کے لیے وہاں آئے ہیں۔

اٹاگارا اُن چھ دیہاتوں میں سے ایک ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اب تک وہاں اس طرح کے حملوں میں دو سو افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

ایک مقامی ایم پی پیٹر بی کا کہنا ہے کہ جیسے ہی لوگ چرچ کے احاطے میں جمع ہوئے مسلح افراد نے ان پر گولیاں چلانی شروع کردیں۔

ان کا خیال ہے کہ حملے میں ہلاک ہونے والوں کی صحیح تعداد بتانا فی الحال بہت مشکل ہے۔ کیونکہ جو بھی جان بچانے میں کامیاب ہوئے وہ قریبی پہاڑی علاقے میں روپوش ہو گئے، اور لاشوں کی گنتی کرنے والا بھی کوئی موجود نہیں تھا۔

بتایا جا رہا ہے کہ منگل کو حملے کے بعد بورنو ریاست کے کئی گاؤں میں بوکو حرام کے پرچم لگے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں