فرقہ واریت: ہے کوئی امید؟

08 اگست 2014
کوئی کیسے بھول سکتا ہے کہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قاتل کو بریلوی مذہبی رہنماؤں نے کس طرح سراہا تھا
کوئی کیسے بھول سکتا ہے کہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قاتل کو بریلوی مذہبی رہنماؤں نے کس طرح سراہا تھا

اس وقت لوگوں کی توجہ اسرائیل کے غزہ پر بہیمانہ حملے کی طرف ہے، لیکن جلد یا بہ دیر مسلم ممالک کو اپنے اندر کے داخلی انتشار کا جائزہ لینا پڑے گا جو ان میں سے ہر ایک کے امن و استحکام اور ہم آہنگی کے لئے خطرہ بنا ہوا ہے-

اسرائیل اپنے مجنونانہ اور وحشیانہ حملوں کی وجہ سے ہر طرف سے سخت ردعمل کا شکار ہے جو کہ اس سے بہت زیادہ سخت ہونا چاہئے کیونکہ شہریوں کی بہت بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں، اور جو ہوائی حملوں اور توپوں کی بمباری کی وجہ سے ہوئی ہے-

مغرب میں کافی لوگ یہ سوچ کر خائف تھے کہ اگر وہ اسرائیلی ریاست پر تنقید کرینگے تو انہیں یہود دشمن سمجھا جائے گا- آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر غزہ سے آنے والی ان دردناک تصویروں نے لوگوں میں یہ مطالبہ کرنے کی ہمت دی کہ اسرائیل یہ قاتلانہ حملے بند کرے اور لگتا ہے کہ یہودی ریاست عام لوگوں کی رائے کے محاذ پر یہ جنگ ہار رہی ہے- غزہ کی حالیہ ٹریجڈی نے لوگوں کو ایک آواز ہو کر متحد کردیا ہے، مثلاً، امریکہ میں عوامی رائے کے لیڈران اور راسخ العقیدہ یہودی سب ایک ساتھ مل گئے اور ایسا لگتا ہے کہ بہت سارے باضمیر لوگ اب یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی ریاست کی خود سری اتنی زیادہ مجرمانہ ہے کہ اب خاموشی کوئی گنجائش نہیں ہے-

لیکن یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہے کہ ان حلقوں میں عوامی رائے کی یہ تبدیلی جو عموماً اسرائیلی موقف کے حامی ہوا کرتے تھے غزہ کے باسیوں کو کیونکر کسی طرح کا سکون بہم پہنچائے گی جہاں ایک خاندان بھی ایسا نہیں بچا ہے جو صدموں سے دوچار نہ ہوا ہو، نہ ہی ایک بھی گھر جو غزہ پر حملے کی شدت سے متاثر نہ ہو-

لکد قیادت کی بےحس اور گھمنڈی اسرائیلی حکومت کو بھی یہ سوچنا پڑے گا کہ ایسی قتل وغارت گری ہمیشہ اس طرح نہیں چل سکتی اور انہیں بھی جنگ بندی کے کسی طریقے کے بارے میں سوچنا پڑے گا، کیونکہ اندرونی طور پر فلسطینیوں کے خلاف اپنانے کیلئے ایک سخت سیاسی موقف انہوں نے حاصل کرلیا ہے- غزہ خبروں کی شہہ سرخیوں سے ہٹ جائیگا کبھی کبھی واپس آنے کیلئے- جب تشدد میں اضافہ ہوگا یا جب مردہ امن میں جان ڈالنے کی کوششیں کی جائیں گی- لیکن یہ کہانی پھر بھلا دی جائیگی جیسا کہ پچھلے کئی سالوں سے ہو رہا ہے-

اور جب ایسا ہوگا، مسلم ممالک کو ایک بار ہھر داخلی اختلافات اور زہریلے نظریات پر توجہ دینی ہوگی- جو جنگل کی آگ کی طرح ملک کے غیر مطمئن حصے میں پھیل رہے ہیں- ہم ان پر جتنا جلد توجہ دے سکیں اتنا ہی بہتر ہوگا- درحقیقت، غزہ سے ہمیں سبق سیکھنا چاہئے-


کیونکہ یقیناً، ان کے لیڈروں کی کمزوری، جن میں سے زیادہ تر حماس اور اخوان المسلمین کے سیاسی اسلام سے خوفزدہ ہیں، وہاں کے عام مردوں اور عورتوں کو جھنجھلاہٹ میں مبتلا کردیگی، جس کی وجہ سے ایک اشتعالی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے-

اس وقت یہ سب دیکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ پوری مسلم دنیا میں "اُمّہ" کن مسئلوں سے دوچار ہے بلکہ پاکستان کے بارے میں اپنی سوچ مرکوز کرنا زیادہ ضروری ہے؛ جی ہاں، کیونکہ پاکستان میں، جہاں مختلف علاقوں میں عسکریت کے خلاف ایک آپریشن جاری ہے، عدم برداشت کا دور دورہ ہے-

کوئٹہ کی سڑکوں پر دو نوجوانوں کی لاشوں کی عبرت انگیز تصویر، زخموں سے اس وقت بھی بہتے ہوئے خون کے ساتھ، جسے غلطی سے غزہ کی تصویر بھی سمجھا جاسکتا ہے- بہرحال ہم خود مذہب کے نام پر خون بہانے میں کسی سے کم نہیں-

اسی اخبار نے اس ہفتے کے شروع میں سندھ رینجرز کے رخصت ہونے والے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل رضوان اختر کا قول، جو ایک صاف گو شخص تھے لیکن ضروری نہیں کہ بہت موثر بھی رہے ہوں، شائع کیا تھا کہ فرقہ وارانہ قتل و غارت گری ایک بےحد پیچیدہ "صورت حال" ہے جس سے نمٹنے کیلئے بہت سارے عوامل کو دیکھنا پڑے گا اور یہ صرف امن و امان کا ہی مسئلہ نہیں ہے-

یہ تو خیر جنرل صاحب کا طریقہ تھا جب وہ رینجرز کے سربراہ تھے اور جس سے شاید انہوں نے اپنے آپ کو، غالباً سینکڑوں نہیں تو درجنوں شیعوں کے قتل کیلئے، ذمہ داریوں سے بری الذمہ قرار دے دیا جو کراچی کی سڑکوں پر ختم کردئے گئے-

یہ بات یقیناً ان کیلئے بے حد ندامت کا باعث رہی ہوگی کہ اتنے بےحساب وسائل کے باوجود وہ ان فرقہ وارانہ قاتلوں کا پتہ لگانے میں کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکے-

بلوچستان میں ہمارے خاکیوں کی کہانی کوئی بہت زیادہ مختلف نہیں ہے جہاں گمشدگیوں اور علیحدگی پسندوں کے قتل میں، جن کی لاشیں آئے دن صوبوں میں پائی جاتی ہیں، لشکر جھنگوی کے ساتھ ان کی مبینہ شمولیت اور ملی بھگت کے الزامات لگائے جاتے ہیں-

جہاں تحریک طالبان کے ساتھ جنگ میں ہمارے فوجیوں کی قربانیاں قابل تعریف اور ہماری تمام تر محبتوں کی مستحق ہیں، ان کے لیڈروں کے دلوں میں ایک مخصوص مذہبی فرقے سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کیلئے نرم گوشہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے-

اس کیلئے صرف فوج کے انٹیلیجنس کے شعبہ کو الزام دینا غلط ہوگا- پی ایم ایل ن کی موجودہ حکومت بھی کبھی کبھی اسی طرح کے عمل کرتی ہے جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی ان ہی کی طرح کے خیالات رکھتی ہے، جیسا کہ خبروں کے مطابق دیوبندی اسکول سے تعلق رکھنے والے مدرسوں سے فارغ التحصیل لوگوں کو اپنے اسکولوں میں اساتذہ کے طور پر ملازمت کی پیشکش وغیرہ-

اس کے علاوہ پی ایم ایل ن کے لیڈروں کے فرقہ پرست لیڈروں کے ساتھ تعلقات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے- حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ صرف ایک فرقے پر عدم برداشت کا الزام لگانا بھی صحیح نہیں ہے جس نے پورے ملک میں اپنا گھربنا لیا ہے-

آخر، کوئی کیسے یہ بھول سکتا ہے کہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قاتل کو بریلوی مذہبی رہنماؤں نے کس طرح سراہا تھا اور کیسے اس جج کو جس نے اس کے خلاف فیصلہ دیا تھا، جان بچانے کیلئے پاکستان چھوڑنا پڑا تھا؟

حالیہ دنوں میں، گجرانوالا میں خوف اور دہشت کے ساتھ احمدیوں کے گھر جلانے کے بارے میں پڑھنے کو ملا جسے ایک جنونی گروہ نے ناچتے اور گاتے ہوئے راکھ کا ڈھیر بنا دیا جس میں ایک معصوم عورت اور بچہ بھی مارا گیا، اس کے ردعمل میں ایک شیعہ ادارے نے سوشل میڈیا پر "لبرل" حضرات پر جو تنقید کی اسے پڑھ کر بھی ایک دھکا لگا-

اس کا غصہ اور غیض و غضب "لبرل لوگوں" کی جانب تھا کہ وہ جان بوجھ کر احمدی اور شیعہ دونوں کے اوپر مظالم کو ایک ساتھ ملا رہے تھے اور یہ سازش کررہے ہیں کہ مسلمانوں کے ایک فرقے اور پارلیمنٹ کی جانب سے قرار دئے جانے والے ایک اقلیتی گروہ کے درمیان جو فرق ہے اسے ختم کردیں-

ایک لمحے کیلئے بھی اس ادارے نے یہ نہیں سوچا کہ دونوں کا ذکر بے رحم قاتلوں کے معصوم شکار کے طور پر کیا گیا تھا- اور اس طرح کی سوچ اگر ہر ایک کی ہوگی تو امید کی کوئی کرن بھی باقی نہیں رہے گی-

تو سوال یہ ہے کہ؛ 'ہے کوئی جو آگے بڑھ کر امید کا چراغ روشن کرے؟'

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: علی مظفر جعفدری

The writer is a former editor of Dawn.

تبصرے (1) بند ہیں

آشیان علی Aug 08, 2014 05:40pm
فرقہ واریت کے ساتھ کچھ لوگوں کے مالی، سیاسی اور سماجی مفادات وابستہ ہیں. فرقہ واریت کے نام پر مالی مفادات کا حصول، سیاسی مفادات یا ووٹ بنک ، اور سماجی رتبے حاصل کرنے جیسے فائدے حاصل کرنے والوں کے لیے فرقہ واریت ایک انڈسٹری کی حیثیت رکھتی ہے. ایسے میں ان لوگون کی طرف سے فرقہ واریت کے خلاف آواز کو مذہب کے خلاف اواز قرار دے کر مطعون کیا جانے کا عمل بھی جاری ہے .