لاشیں ہی لاشیں

اپ ڈیٹ 30 دسمبر 2014
پشاور حملے میں جاں بحق ہونے والے بچے محمد علی خان کے لواحقین گریہ کر رہے ہیں — رائٹرز
پشاور حملے میں جاں بحق ہونے والے بچے محمد علی خان کے لواحقین گریہ کر رہے ہیں — رائٹرز

خزاں کے اس دن انسانی جسم خشک پتوں کی طرح بکھرے ہوئے تھے۔

زندگی میں پہلی دفعہ میں نے جلے ہوئے انسان دیکھے، جلنے کی بو سونگھی، انہیں ہاتھ لگایا، انہیں جمع کیا، یہ بچوں، لڑکوں، اور خواتین کے ٹکڑے تھے۔ ایک کٹا ہوا ہاتھ تھا جس میں ایک گلابی رنگ کی مکی ماؤس گھڑی بندھی ہوئی تھی، اور ایک کٹا ہوا پیر تھا جس میں چیتا جوگر پہنا ہوا تھا۔ 130 سے زیادہ لاشیں، اور تقریباً اتنے ہی زخمی۔

پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے سفید ماربل کے شیلف میں ایدھی کے اجلے کپڑوں میں لاشیں لپٹی ہوئی پڑی تھیں۔ غمزدہ لوگوں سے کہا جارہا تھا کہ وہ کپڑے میں لپٹے اپنے ان پیاروں کو پہچانیں۔ ہر طرح کے جذبات موجود تھے، دکھ، چیخیں، آہیں، آنسو، اور اس کے بعد خاموشی، صرف خاموشی۔

نہیں میں گذشتہ ہفتے کی بات نہیں کر رہا۔ میں 28 نومبر 2009 کی بات کر رہا ہوں۔

ایک نوجوان پولیس افسر کی حیثیت سے میں پشاور میں اپنے پہلے اسائنمنٹ پر تھا۔ انتہائی مصروف مینا بازار، جہاں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد کپڑوں اور دیگر اشیا کی خریداری کے لیے جاتی تھی، دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی کے ذریعے تباہ کردیا گیا تھا۔

حملے نے ہر کسی کو ہراساں اور توڑ کر رکھ دیا۔ آخر کوئی کیسے عورتوں اور بچوں پر حملہ کرسکتا ہے؟ آخر کیسے وہ لوگ مارے جاسکتے ہیں، جن کی ابھی کچھ دن بعد ہی شادی طے تھی؟

فوراً ہی دشمن سے بدلہ لینے کے عہد کیے گئے۔ موم بتیاں جلا کر خراجِ عقیدت پیش کیا گیا، اور مرنے والوں کی یاد منائی گئی۔ اخبارات میں لمبے چوڑے اداریے لکھے گئے، ٹی وی پر گرما گرم بحثیں ہوئیں، اور جلسوں میں جوشیلی تقریریں ہوئیں۔

یقیناً، اس بربریت کے ذمہ دار نہ پاکستانی ہوسکتے ہیں، نہ مسلمان، اور نہ ہی انسان۔

پھر یہ بحث ٹھنڈی پڑ گئی اور زندگی آگے بڑھ گئی۔ دشمن کی پہچان مشکل ہونے لگی، اور زندگی آگے بڑھ گئی۔

لیکن یہ حملہ آخری حملہ نہیں تھا۔

پھر اور حملے ہوئے۔ ہر طرح کے حملے، جن میں خودکش، کار بم، راکٹ، اور گوریلا حملے شامل ہیں۔ ہر طرح کے گروپس کو ٹارگٹ بنایا گیا جن میں فوج، پولیس، عدالتیں، جیل، پریس کلب، ایئرپورٹ، ہسپتال، اور اسکول شامل ہیں۔ اغوا کی وارداتیں ہوئیں جبکہ سر بھی قلم کیے گئے، ریموٹ کنٹرول دھماکے بھی ہوئے، سادہ سی شوٹنگ بھی ہوئیں اور پیچیدہ کارروائیاں بھی۔ پولیس اور فوجی اہلکار شہید ہوئے، ڈاکٹروں اور انجینئرز کو اغوا کیا گیا، سیاستدانوں اور کاروباری شخصیات کو ٹارگٹ کیا گیا۔

مرنے والے صرف ایک تعداد بن کر رہ گئے، اور حملے صرف ایک معمول، جس کے ساتھ جینا لازم قرار دیا گیا۔

ایک بار پھر تعزیتی ریفرینس منعقد کیے گئے، اور مالی امداد کے اعلانات کیے گئے۔ ایک بار پھر تقریریں اور بحثیں ہوئیں۔ ایک بار پھر بحث ٹھنڈی ہوئی اور زندگی آگے بڑھ گئی۔

دشمن قریب اور زیادہ واضح تھا، لیکن پھر بھی زندگی آگے بڑھ گئی۔

مسئلے کے حل اور جوابی ردِ عمل پر باتیں کی گئیں۔ قلیل مدتی اور طویل مدتی، نرم اور سخت، نظری اور عملی، اور آسان اور مشکل ردِ عمل کی بات کی گئی۔ کچھ لوگوں نے مذاکرات کا مشورہ دیا، تو کچھ لوگوں نے آپریشن کو حل قرار دیا۔

سب کچھ آزمایا گیا، نرم رویہ، سخت موقف، مذاکرات، مکمل آپریشن، لیکن حملے بڑھتے رہے اور لاشوں کی تعداد بھی۔

ایک بار پھر دشمن دور اور غیر واضح محسوس ہونے لگا۔ لگتا تھا کہ جنگ دور کہیں قبائلی علاقوں کی جنگ ہے۔

اب کی بار زیادہ بات وجوہات اور کم بات نتائج پر کی گئی۔ بحث ایک بار پھر ٹھنڈی پڑ گئی۔ نفرت اور تشدد کی وجہ بننے والے عوامل پر روشنی ڈالی گئی جس میں سے زیادہ تر پہنچ سے باہر تھے۔ امن پسند لوگ حملوں کی کم ہوتی شرح پر مطمئن ہونے لگے، جبکہ سماجی و سیاسی کارکن آپریشن کی کامیابیوں کے گن گانے لگے۔

لیکن اب ایک بار پھر قوم نے بدترین تشدد اور بربریت کا مظاہرہ دیکھا ہے۔ قوم متحد ہے، غصے میں ہے، اور پرعزم ہے۔ یہ فیصلے، منصوبہ بندی، اور عمل کرنے کا ایک نادر موقع ہے۔

اس سب کو اب ختم ہوجانا چاہیے، ہمیشہ کے لیے۔

دشمن نہ دور ہے، اور نہ غیر واضح، دشمن ہمارے اندر موجود ہے۔

تعلیم، شہری نظم و ضبط، اور قانون کی بالادستی کے مخالفین کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ دہشتگردوں کی تربیت ہی مارنے اور زخمی کرنے کے لیے ہے۔ جو ان کی مدد کرتے ہیں، حمایت کرتے ہیں، اور سہولیات فراہم کرتے ہیں، وہ سب ہم میں سے ہی ہیں۔ یہ ہمارے بچوں کو گمراہ کر کے بھرتیاں کر رہے ہیں۔ اب بھی یہ لوگ مذہب کو نفرتیں پھیلانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

جنگ نفرت، تشدد، اور قتلِ عام کو جائز قرار دیے جانے کے خلاف ہونی چاہیے۔ جنگ ہمارے آس پاس موجود انتہاپسندوں کے خلاف ہونی چاہیے، جنگ ان لوگوں کے خلاف ہونی چاہیے جو دہشتگردی کی حمایت کرتے ہیں، یا اس کے بارے میں طرح طرح کے جواز پیش کرتے ہیں۔


16 دسمبر 2014

خزاں کے اس دن انسانی جسم خشک پتوں کی طرح بکھرے ہوئے تھے۔

پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے سفید ماربل کے شیلف میں ایدھی کے اجلے کپڑوں میں لاشیں لپٹی ہوئی پڑی تھیں۔ غمزدہ لوگوں سے کہا جارہا تھا کہ وہ کپڑے میں لپٹے اپنے ان پیاروں کو پہچانیں۔ ہر طرح کے جذبات موجود تھے، دکھ، چیخیں، آہیں، آنسو، اور اس کے بعد خاموشی، صرف خاموشی۔

ہاں، یہ گذشتہ ہفتے کا ایک بدنصیب دن تھا۔ اس سے پہلے بھی ایسے سینکڑوں دن آچکے ہیں، اور سینکڑوں اور آئیں گے، اگر زندگی اب بھی آگے بڑھ گئی تو۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

حسین عبداللہ Dec 30, 2014 03:21pm
میرا بس ایک سوال ہے کیا آپ جب حاضر سرویس ہوتے تھے تو تب بھی ایسا سوچتے تھے؟؟ معاف کرنا زیادہ تر پولیس کے بارے میں ہماری رایے قدرے مختلف ہے کیونکہ اس آگ اور خون دریا میں پولیس بھی ان تماشائیوں میں شامل ہے جو کنارے پر کھڑے عوام کو ڈوبتی دیکھ رہے ہیں اور بس ایک ہائے اور کف افسوس ملتے ہیں دوٹوک کہہ دوں ہم عوام پولیس سے نہ صرف مایوس ہیں بلکہ پولیس سے بھی اتنا ڈرتے ہیں جتنا دہشتگردوں سے