' شوہر کا خواب پورا کرنے کیلئے زیور فروخت کرنا پڑا'

اپ ڈیٹ 12 جنوری 2015
پشاور کے علاقے گڑھی پشتون میں سماجی کارکن عامر گمریانی کا زیر تعمیر اسکول—۔ فوٹو/ ڈان
پشاور کے علاقے گڑھی پشتون میں سماجی کارکن عامر گمریانی کا زیر تعمیر اسکول—۔ فوٹو/ ڈان

پشاور: 'ایک عورت ہونے کے ناتے میرے لیے یہ بہت مشکل تھا کہ میں اپنی شادی کا زیور فروخت کروں، میرے لیے یہ ایسا ہی تھا جیسے میری روح کا کچھ حصہ فروخت کیا جا رہا ہو'۔

یہ خیالات ہیں سعدیہ عامر خان کے، جنھیں غریب بچوں کے لیے اپنے شوہر کے اسکول کی تعمیر کے لیے اپنا زیور فروخت کرنا پڑا۔

سعدیہ کے مطابق 'میں اپنے شاعر شوہر کو ان کا خواب پورا کرنے کے لیے پہلے ہی اپنی جانب سے ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرا چکی تھی۔ اب یہ مشکل مرحلہ تھا اور مجھے کوئی فیصلہ کرنا تھا اور آج میں پسماندہ علاقوں میں اسکول کی تعمیر کے اپنے شوہر کے خواب کو حقیقیت بنتے ہوئے دیکھ رہی ہوں'۔

پشاور کے علاقے پشتون گڑھی کے رہائشی نوجوان شاعر اور سماجی کارکن عامر گمریانی نے تین سال قبل غریب بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے حوالے سے ایک خواب دیکھا۔

انھوں نے ایک غیر معمولی قدم اٹھایا اور اپنے خاندان والوں کی ناراضگی کے باوجود اپنی زمین فروخت کر کے اسکول کی تعمیر کے اپنے خواب کو پورا کرنے کے لیے مناسب جگہ کی تلاش شروع کردی۔

اُس وقت عامر ایک نجی اسکول میں بطور استاد فرائض سر انجام دے رہے تھے اور اسکول مالکان کی جانب سے طلبہ اور اساتذہ کی حق تلفیوں پر نالاں تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ اسکولوں کے مالکان طلبہ سے فیسیں تو بھاری بھرکم وصول کرتے ہیں تاہم انھیں معیاری تعلیم اور بنیادی سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں۔

عامر نے بتایا کہ 'میں نے سوچا کیوں نہ میں اپنی گاؤں کی زمین فروخت کردوں اور ایک اسکول کھولوں جہاں طلبہ کو کمیونٹی سروس کی بھی تعلیم دی جائے اور وہ ایک کامیاب اور مفید شہری کے طور پر سامنے آسکیں'۔

عامر نے اس حوالے سے عطیات جمع کرنے کے لیے ایک مہم کا آغاز کیا کیونکہ اسکول کے لیے منتخب کی گئی زمین کی قیمت اُن کی اپنی فروخت شدہ زمین کی قیمت سے کئی زیادہ تھی۔

کئی دوستوں نے عامر کی اس خواہش کو 'ایک شاعر کا خواب' قرار دیا، جبکہ دیگر لوگ ان کا خواب سن کر ہنستے رہے، صرف چند ایک نے ہی ان کی مدد کرنے کا وعدہ کیا۔

کچھ عرصے بعد عامر نے جی ٹی روڈ کے قریب پشتون گڑھی چوک کے مقابل 124 مرلہ پر مشتمل ایک زمین کا ٹکڑا خرید لیا، جو غریب افراد کے بچوں کے لیے قابل رسائی جگہ تھی۔

'مجھے اپنے خواب کے سچ ہونے کا اس وقت پورا یقین ہوگیا جب پشاور کے ایک غریب اسکول ٹیچر نے میرے پروجیکٹ کے لیے پچاس ہزار روپے عطیہ دیا'۔

جس کے بعد ان کے سابق طالب علموں، دوستوں اور رشتے داروں کی طرف سے بھی عطیات موصول ہوتے گئے۔

عامر کا کہنا تھا کہ 'میں نے دو سال تک امریکا میں ایک ٹریننگ ورکشاپ میں بھی شرکت کی تھی، جس نے مجھ میں اپنی کمیونٹی کے لیے کام کرنے کے جذبے کو مزید اجاگر کیا'۔

اسکول کا نام 'سباوون اکیڈمی' رکھا گیا ہے اور یہ اگلے تعلیمی سیشن میں تدریس کا آغاز کردے گا۔

عامر کی اہلیہ سعدیہ نے دعویٰ کیا کہ اسکول میں پرائیویٹ اسکولوں کے مقابلے میں طلبہ کو آدھی فیس پر معیاری تعلیم فراہم کی جائے گی جبکہ 20 سے زائد بچے مفت تعلیم حاصل کریں گے۔

انھوں نے بتایا کہ قابل ماہرینِ تعلیم پر مشتمل اسکول کے بورڈ آف گورنرز کی جانب سے امن، برداشت اور مقامی ثقافت کو بالکل متوازن انداز میں پیش کرتا ہوا سلیبس تشکیل دیا گیا ہے۔

سعدیہ کے مطابق اسکول کے اساتذہ نہایت تربیت یافتہ اور پر عزم ہیں جو نہ صرف طلبہ کو پڑھائیں گے بلکہ ان کی شخصیات کو بھی سنواریں گے۔ 'اس پروجیکٹ کا مقصد دوسروں کی طرح پیسہ کمانا نہیں بلکہ مقامی لوگوں میں رضاکارانہ طور پر کام کرنے کا جذبہ اجاگر کرنا ہے'۔

مقامی مذہبی اسکالر قاضی احمد نے بتایا کہ 'سباوون اکیڈمی' کا آغاز مقامی لوگوں کے لیے روشنی کی ایک نئی کرن ثابت ہوگا۔

انھوں نے بتایا کہ 'غربت کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے پشاور یا نو شہرہ نہیں بھیج سکتے۔ اس اسکول میں ہمارے بچے دوسرے اسکولوں کے مقابلے میں ایک بالکل مختلف انداز میں تعلیم حاصل کریں گے اور اسکول سلیبس کا معائنہ کرنے کے بعد مجھے یہ محسوس ہوا ہے کہ یہ ماڈرن اور مقامی نظریات کا ملاپ پے'۔

تبصرے (1) بند ہیں

anees Jan 12, 2015 01:48pm
mashallah