چار برسوں میں 4557 لاشیں برآمد ہوئیں، رپورٹس

11 فروری 2015
۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

اسلام آباد: لاوارث لاشوں کے کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان کو بتایا گیا ہے کہ گذشتہ چار برسوں میں ملک بھر سے 4 ہزار پانچ سو ستاون لاشیں برآمد ہوئی جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے لاوارث لاشوں سے متعلق کیس کی اسلام آباد میں سماعت کی۔

سپریم کورٹ نے کیس کی گزشتہ سماعت کے دوران تمام صوبائی حکومتوں کے ان کے صوبوں سے ملنے والی لاشوں کے اعداد و شمار فراہم کرنے کو کہا تھا۔

لاوارث لاشوں کے معاملے پر تمام صوبوں نے گزشتہ روز اپنی رپورٹس سپریم کورٹ میں جمع کرادی ہیں۔

اس موقع پر بلوچستان حکومت کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل (اے اے جی) فرید ڈوگر نے سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کی، جس میں کہا گیا ہے کہ صوبے میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران 153 لاوارث لاشیں ملی ہیں، جن میں سے 107 کی شناخت ہوسکی ہے۔

اے اے جی پنجاب رزاق اے مرزا نے عدالت میں رپورٹ جمع کروائی جس کے مطابق صوبے میں دو ہزار تیرہ چودہ کے دوران بارہ سو ننانوے لاوارث لاشیں ملیں جن میں سے اکاون لاشوں کی شناخت نہیں ہوسکی ہے۔

حکومت سندھ کے اے اے جی عدنان کریم نے سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں کہا ہے کہ صوبے سے چار سو سینتیس لاشیں ملی ہے اور کراچی سے گذشتہ چھ برسوں کے دوران تین سو اٹھانوے لاشیں ملیں جن میں سے تین سو چار کی شناخت ہوچکی ہے۔

اے اے جی خیبرپختونخوا وقار احمد خان نے عدالت کو بتایا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں کے پی کے سے دو ہزار چھ سو لاوارث لاشیں ملیں تاہم شناخت شدہ اور غیرشناخت شدہ لاشوں کے اعداد و شمار تاحال اکھٹے نہیں کیے جاسکے۔

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی جانب سے نائب اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوئے اور انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد سے 14-2012 کے دوران68 لاشیں ملی جس میں سے 32 لاشوں کی شناخت نہیں ہو سکی۔

کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ وفات پاجانے والے لوگ تو حکومت کے لیے خطرہ نہیں ہوتے، کیا حکومت کو لاپتہ افراد کے لواحقین نظر نہیں آتے اور اگر حکومتیں اور ادارے بے بس ہیں توہمیں بتادیں۔

سپریم کورٹ نے لاوارث لاشوں سے متعلق کیس میں اٹارنی جنرل کو لاپتہ افراد اور لاوارث لاشوں سے متعلق ڈیٹابیس بنانے کا حکم دے دیا ہے۔

کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

راضیہ سید Feb 11, 2015 01:18pm
جہاں انصاف ایک خاص طبقے تک ہی محدود ہو ،لوگوں کی گردنیں گاجر مولی کی طرح کٹ رہی ہوں اور حکمرانوں کو اپنی عیش و عشرت سے فرصت نہ ملے وہاں ہم جیسے لکنے والے بھی کبھی روشن پہلوئوں کی طرف نہیں دیکھ سکتے ، بلکہ معاشرے میں ہونے والے ان تلخ واقعات کا اثر ضرور قبول کرتے ہیں ،ان لاوارث لاشوں کا ڈیٹا بیس بنانے کی بجائے ان مجرموں کا ڈیٹا بیس سپریم کورٹ کو بنانا چاہیے جن کی وجہ سے یہ موت کے منہ میں چلے گئے اور انھیں ہی تختہ دار پر چڑھانا چاہیے ، کیا انصاف کے حصول کے لئے موت کا انتظار کرنا ہوگا ، پاکستان کا ایک معصوم بچہ بھی یہ سوال کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔