گوگل غالب ہے، لیکن ہمیشہ نہیں رہے گا

12 فروری 2015
ماؤنٹین ویو، کیلی فورنیا میں گوگل کا ہیڈکوارٹر۔ —. فائل فوٹو
ماؤنٹین ویو، کیلی فورنیا میں گوگل کا ہیڈکوارٹر۔ —. فائل فوٹو

ٹیکنالوجی کمپنیوں کا خاتمہ اکثر کسی دھماکہ خیز خبر کے ساتھ نہیں ہوتا، بلکہ وہ رفتہ رفتہ آہستگی کے ساتھ شکستگی سے دوچار ہو جاتی ہیں۔ تنزّلی کا یہ سفر غیرمربوط اور ناقابلِ ادراک ہوتا ہے کہ کارپوریٹ آمدنی کی رپورٹوں کی سکون بخش زبان پر اس کا عکس فوری طور پر محسوس نہیں کیا جاسکتا۔

ڈیجیٹل ایکوپمنٹ اور وینگ جیسی پرانی بڑی کمپنیاں راتوں رات غائب نہیں ہوئی تھیں۔ وہ مصنوعات کی مرمت کے بوجھ سے آہستہ آہستہ ڈوب گئیں، واضح رہے کہ انہی مصنوعات نے انہیں دولت مند اور ان کے اردگرد تیکنیکی تبدیلی کی رفتار سے ناقابلِ موازنہ بنایا تھا۔

جیسا ان دونوں کے ساتھ ہوا، ایساہی کچھ اب ہیولیٹ-پیکارڈ (ایچ پی) کے ساتھ ہورہا ہے۔

یہاں تک کہ مائیکروسافٹ جسے کبھی ناقابلِ شکست اور پرسنل کمپیوٹنگ سافٹ ویئر پر اجارہ دار قرار دیا گیا تھا، نے ڈیسک ٹاپ سے موبائل ڈیوائسز کی جانب منتقلی کے حوالے سے کافی جدوجہد کی ہے، یہاں تک کہ اس کو منافع میں سے اربوں روپے اس حوالے سے خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔

اب گوگل کو بھی اپنے ٹیکنالوجی کے اعلیٰ معیار کے عہدے داروں کے ساتھ اسی طرح کے سوال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور اس سے پہلے کی ان کمپنیوں کی طرح اس کی موجودہ طاقت سرچنگ کے دوران اشتہارات کے نہ ختم ہونے والے ذخائر کل اس کی کمزوری میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔

نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹیکنالوجی کے تجزیہ نگار اور بلاگر بین تھامسن کا کہنا ہے ’’میں یہ نہیں کہہ رہا کہ گوگل ہم سے دور جارہا ہے، جس طرح مائیکروسافٹ ہم سے دور چلا گیا۔ ہم صرف یہ سوچ رہے ہیں کہ گوگل کے بعد کیا ہوگا کہ ہم گوگل کو یاد کریں گے۔‘‘

ماؤنٹین ویو، کیلی فورنیا میں کمپنی کے ہیڈکوارٹر پر پہلی نظر ڈالی جائے تو یہ مالی طور پر کافی صحت مند دکھائی دیتی ہے۔ اس نے 2014ء میں 14.4 ارب ڈالرز کا منافع حاصل کیا ہے اور پچھلے سال سے اس کی آمدنی میں 19 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

گوگل دنیا بھر کی ویب سرچنگ کے تین چوتھائی حصے کی مالک ہے، اور یہ کمپنی اینڈرائیڈ کو بھی کنٹرول کرتی ہے، جو دنیا میں بڑے پیمانے پر موبائل آپریٹنگ سسٹم میں استعمال کیا جارہا ہے، اور گوگل یوٹیوب کی بھی مالک ہے، جو دنیا کی سب سے زیادہ مقبول وڈیو سائٹ ہے۔

تاہم گوگل کے بینادی کاروبار سرچنگ اشتہارات کی نشوونما پچھلے چند سالوں سے تقریباً بیس فیصدسالانہ پر رکی ہوئی ہے۔

اس کمپنی کے مالیاتی نتائج تجزیہ کاروں کی توقعات سے مطابقت پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اور اس کے اسٹاک کی قیمت پچھلے سال سے 8 فیصد تک گرگئی ہے۔

اگرچہ گوگل نے مستقبل کی ٹیکنالوجیز کی ایجادات پر کافی وسائل خرچ کیے ہیں، تاہم اس کی بہت سی ایجادات آمدنی کے نئے ذریعے میں تبدیل ہونے میں ناکام رہی ہیں۔

گوگل کی آمدنی کا تقریباً 90 فیصد حصہ اس کے اشتہارات سے آتا ہے، جن میں زیادہ تر اس کے اپنے سرچ انجن پر ہوتے ہیں۔

لیکن جیسے جیسے اسمارٹ فون لیپ ٹاپ اور ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز کو گہن لگا کر اس سیارے کا سب سے زیادہ اہم کمپیوٹنگ ڈیوائس بن گیا ہے، یہ ڈیجیٹل اشتہارات کا کاروبار تیزی سے تبدیل ہورہا ہے۔

اشتہارات کے ڈالرز کے لیے گوگل کی روایتی حریف فیس بک کو اس تبدیلی سے فوری فائدہ پہنچا ہے۔

مستقبل میں گوگل کے لیے جگہ زیادہ واضح نہیں ہے۔

گزشتہ موسم خزاں میں شایع ہونے والے اپنے ایک مضمون، جو بہت زیادہ بحث مباحثے کا موضوع بنا رہا، میں بین تھامسن نے دلیل دی تھی کہ سرچنگ کی یہ کمپنی اشتہارات کے ڈالرز سے فائدہ اُٹھانے سے معذور ہے، اس لیے کہ اب خریدوفروخت کرنے والے ٹی وی پر خرچ کررہے ہیں، اور رقم کا ایک بنڈل آہستہ آہستہ موبائل ایپلیکیشن کی جانب منتقل ہورہا ہے۔

گوگل اگر آن لائن اشتہارات پر غالب نہیں رہتا تو بھی کافی دولت کمائے گا، لیکن ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے اسے دیگر کاروبار کی تلاش کی بھی ضرورت ہوگی۔

شاید اس کی وضاحت کمپنی کے شریک بانی اور چیف ایگزیکٹیو لیری پیج کرسکیں، جنہیں حال ہی میں گوگل کی سب سے زیادہ مصنوعات کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

وہ یہ وضاحت بھی کرسکتے ہیں کہ آخر ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر گوگل کے اخراجات چوتھی سہہ ماہی میں 2.8 ارب ڈالرز تک بڑھ گئے ہیں، جو ایک سال پہلے اسی سہہ ماہی میں 2.1 ارب ڈالرز تھے۔

بغیر ڈرائیور کے ازخود چلنے والی کار، گوگل گلاس، امریکی شہروں میں فائبر آپٹکس لائنیں اور یہاں تک کہ خلائی دریافتوں جیسے منصوبوں پر ہونے والے اخراجات نے اس کمپنی کے لیے کافی چہل پہل پیدا کردی ہے۔

لیکن بین تھامسن یاد دلاتے ہیں کہ مائیکروسافٹ نے بھی ریسرچ اور ڈیویلپمنٹ میں بھاری سرمایہ کاری کی تھی، اور اس سرمایہ کو بہت کم حصہ واپس لوٹتے دیکھا گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں