اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان بالآخر جمعہ کے روز جاگ گیا، اور وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں سینیٹ کے انتخابات پر جاری کیے گئے صدارتی حکم کو ’’مبہم اور خود تردیدی‘‘ قرار دے دیا۔

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے جمعرات کو فاٹا کی چار نشستوں پر پولنگ ملتوی کردی تھی۔ کل اس نے کہا کہ اس صدارتی حکم کی دوسری، تیسری اور چوتھی شقیں مبہم، خود تردیدی اور اس قانون سے متصادم تھیں، جس کے تحت انتخابی شیڈول کا اعلان کیا گیا تھا۔

اپنے ایک نوٹیفکیشن میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کہنا تھا کہ اس الیکشن کو پہلے ہی قانون کے مطابق شروع کیا گیا تھا، جب ریٹرننگ آفیسر کو یہ صدارتی آرڈیننس موصول ہوا تو اس نے پولنگ کو سینیٹ کے انتخابی ایکٹ 1975ء کے سیکشن 22 کے تحت پولنگ معطل کردی۔

الیکشن کمیشن نے ریٹرننگ افسر کے اس فیصلے کی باضابطہ توثیق کرتے ہوئے کہا کہ بےقاعدگیاں دور کرنے کے بعد نئی انتخابی تاریخ کا اعلان کردیا جائے گا۔

تاہم یہ نوٹیفکیشن مبہم تھا، کہ اس میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ صدارتی حکم میں بے قاعدگیوں کو کون دور کرے گا۔

انتخابی قوانین کے ایک ماہر بیرسٹر افضل حسین نے ڈان کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے واضح نہیں کیا کہ آخر فاٹا کی نشستوں پر سینیٹ کے انتخابات آئین میں واضح طور پر بیان کیے گئے مینڈیٹ کے مطابق شیڈول کے مطابق کیوں منعقد نہیں کیے گئے۔

ان کی رائے تھی کہ الیکشن کمیشن کو اس صدارتی حکم کو مسترد کردینا چاہیے، اس لیے کہ انتخابی شیڈول کا پہلے ہی اعلان کردیا گیا تھا، اور قانون کے تحت بیلٹ پیپرز کی چھپائی ہوگئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ رات گئے جاری کیے گئے اس حکم میں سات قبائلی ایجنسیوں کے لیے ایک ایک نشست اور آٹھویں نشست فرنٹیئر ریجن کے لیے مختص کی گئی تھی، یوں ان ایجنسیوں سے جائز طور پر نامزد امیدواروں کو باہر پھینک دیا گیا تھا، جو پہلے ہی سینیٹ میں نمائندگی رکھتی ہیں، اور انہیں انتخابی مقابلے سے باہر کرنا غیرقانونی اور غیر آئینی تھا۔

بیرسٹر افضل حسین نے کہا کہ اس کے علاوہ اس حکم میں یہ بھی واضح نہیں ہے کہ فاٹا کے گیارہ اراکین قومی اسمبلی میں سے ہر ایک کو کتنے بیلٹ پیپرز دیے جائیں گے۔

ان کا نکتہ نظر تھا کہ اس صدارتی حکم میں کافی خامیاں تھیں، اور جب فاٹا کے اراکین قومی اسمبلی کی دردمندانہ درخواست کی سماعت کے لیے ایک انتخابی ٹریبیونل قائم کیا گیا تو اس کو عدالت کی جانب سے مسترد کردیا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں