کراچی: ایک ایسے موقع پر جب پاکستان چھ سال کے طویل عرصے کے بعد پہلی سیریز کی میزبانی کیلئے تیار ہے، پاکستان کرکٹ کے سربراہ کو دورہ بنگلہ دیش میں بدترین شکستوں کی وجوہات جاننے اور ان کے حل کا اہم چیلنج درپیش ہے۔

بنگلہ دیش سے ایک روزہ میچوں کی سیریز میں 3-0 کی کلین سوئپ شکست کے بعد پاکستانی ٹیم ایک روزہ رینکنگ میں پہلی مرتبہ اپنی بدترین نویں پوزیشن پر آ گئی۔

اس تنزلی کی وجہ سے پاکستان کی 2017 میں ہونے والی چیمپیئنز ٹرافی میں شرکت خطرے میں پڑ گئی ہے جہاں ابتدائی آٹھ ٹیمیں شرکت کی اہل ہوتی ہیں۔

اس کے ساتھ ٹیم کو بنگلہ دیش کے خلاف ٹی20 کرکٹ میں بھی پہلی شکست کا سامنا کرنا پڑا تاہم وہ دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز 1-0 سے جیتنے میں کامیاب رہے لیکن اس کے ساتھ ہی تحقیقات اور الزامات کے کھیل کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

پاکستان کو 1992 کا ورلڈ کہپ جتوانے والے قائد عمران خان نے ان شکستوں کو ناقابل یقین قرار دیا تو دوسری جانب قومی ٹیم کے سابق کپتان رمیز راجہ کا کہنا تھا کہ یہ قومی کرکٹ کی تاریخ کا بدترین مقام ہے۔

متعدد سابق کھلاڑیوں اور کپتانوں نے قومی ٹیم کے موجودہ سسٹم کی خرابی کی جانب نشاندہی کی جس کے بعد چیئرمین بورڈ شہریار خان نے فرسٹ کلاس سسٹم کو مکمل خراب اور کھلاڑیوں کی فٹنس کو دنیا میں سب سے بدتر قرار دیتے ہوئے صورتھال کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کا وعدہ کیا۔

یہ پوسٹ مارٹم ایک ایسے موقع پر کیا جا رہا ہے جب پاکستان چھ سال کے طویل عرصے کے بعد ملک میں عالمی کرکٹ کی واپسی کے لیے تیار ہے جہاں وہ تین ایک روزہ اور دو ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز کے لیے زمبابوے کی میزبانی کرے گا۔

مارچ 2009 میں لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد کسی بھی انٹرنیشنل ٹیم نے پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔

ایک روزہ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لینے والے کپتان مصباح الحق نے ٹیم کو ناکامیوں کے دلدل اور تنزلی سے بچانے کے لیے متحدہ کوششوں پر زور دیا۔

کئی دہائیوں سے عمران خان فرسٹ کلاس سسٹم میں خرابیوں کی نشاندہی کرتے رہے ہیں لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ ماضی میں اسی سسٹم سے جاوید میانداد، وسیم اکرم، وقار یونس اور انضمام الحق جیسے کھلاڑی منظر عام پر آئے۔

تاہم سابق کپتان انضمام الحق اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارا فرسٹ کلاس سسٹم بہتر نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اے ٹیموں کے دورے نہ ہونے سے ہمیں بہت نقصان ہوا کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے ہم کھلاڑیوں کو میچور کرتے ہیں۔

ملک میں دہشت گرد حملوں کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ نہ ہونے سے بھی پاکستان کرکٹ کو شدید نقصان پہنچا۔

پی سی بی حکام کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے کئی ملکوں نے اپنی اے ٹیم بھیجنے سے بھی انکار کردیا، یہ دورے دوطرفہ بنیادوں پر کیے جاتے ہیں لیکن ایسا نہ ہونے سے ہمارے اے ٹیم باہر ملک میں نہ کھیل سکی۔

فاسٹ باؤلر وہاب ریاض اور عمر اکمل 2009 میں پاکستان اے ٹیم کے دورہ آسٹریلیا کے بعد ابھر سامنے آئے اور قومی ٹیم میں شامل کیے گئے۔

سابق کپتان انضمام الحق کے مطابق جب تک نوجوان کھلاڑیوں کو غیر ملکی ملکی دوروں پر نہیں بھیجا جائے گا، وہ ایک روزہ کرکٹ اور ٹیسٹ کے معیار پر پورا نہیں اتر سکتے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے کھلاڑیوں کو انگلینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ بھیجنے کی ضرورت ہے، اگر ہم نہیں بھیجیں گے تو ہم اپنے کھلاڑیوں کو اعلیٰ سطح کے لیے تیار نہیں کر سکتے۔

دیگر ناقدین ہیڈ کوچ وقار یونس سمیت کوچنگ کے عملے کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں جنہوں نے گزشتہ جون میں ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد سے اب تک پانچ ایک روزہ میچوں میں کی سیریز میں شکست کھائی۔

سابق کپتان وقار یونس نے کہا کہ سب سے بہتر یہی ہے کہ ایک روزہ کرکٹ میں بدترین کارکردگی کے بعد وقار یونس مستعفی ہو جائیں۔

راشد نے کہا کہ بنگلہ دیش نے اپنی کرکٹ میں بہت بہتری کی ہے لیکن اس کے باوجود اس طرح ہار نا ناقابل برداشت ہے اور اس سب کی ذمے دار ٹیم مینجمنٹ ہے۔

زمبابوے کی ٹیم 19 مئی کو پاکستان پہنچے گی جہاں 22 سے 31 مئی تک دونوں ٹیمیں نبرد آزما ہوں گی اور خصوصاً ایک روزہ میچوں میں زمبابوے کی نگاہیں بھی پاکستان کو اپ سیٹ کرنے پر مرکوز ہوں گی جو اس وقت تعمیر نو کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔

لیکن بنگلہ دیش کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ میں جس طرح پاکستانی باؤلرز جنید خان، وہاب ریاج اور یاسر شاہ نے باؤلنگ کی، اس سے پاکستانی ٹیم کے حوصلے ضرور بلند ہوئے ہوں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں