کوئٹہ: بلوچستان حکومت کے ترجمان انوار الحق کاکڑ نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک حساس ادارے نے شہباز تاثیر کے بارے میں اطلاعات فراہم کرتے ہوئے صوبے کے سیکیورٹی اداروں کو کارروائی کی ہدایت دی تھی۔

ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے صوبائی ترجمان نے دعویٰ کیا کہ اغواکاروں کی جانب سے رہا کیے جانے کے بعد شہباز تاثیر نے اپنے گھروالوں کو فون کیا تھا، جنھوں نے حساس ادار ے کو ان کی معلومات فراہم کیں۔

اس کے بعد حساس ادارے نے فرنٹئیر کور (ایف سی) اور انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کو شہباز تاثیر کو ریسکیو کرنے کیلئے کارروائی کی ہدایت کی۔

انوازالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس روز اپنے بیان میں ایف سی اور سی ٹی ڈی کی تعریف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کی کوششوں کے حوالے سے کی تھی۔

انھوں ںے مزید کہا کہ انھیں ایک ایسے مقام پر بھیجا گیا تھا جہاں ان پر دہشت گردوں کی جانب سے حملہ ہوسکتا تھا۔

مزید پڑھیں: مقتول گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز بازیاب

کاکڑ نے واضح کیا کہ 'ہم خود کیلئے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے داد لینے کا دعویٰ نہیں کررہے'۔

ترجمان نے مزید کہا کہ انھیں میڈیا کو مطمئن کرنے کیلئے معلومات 'اسی طرح' آگے بڑھانے کیلئے کہا گیا تھا۔

ترجمان ںے کہا کہ صوبائی حکومت کی 'واحد غلطی' یہ ہے کہ انھوں نے شہباز تاثیر کی رہائی کی خبر پر خوشی کا اظہار کیا تھا ،جن کے اغوا سے ملک کا امیج خراب ہورہا تھا۔

واضح رہے کہ گذشتہ دنوں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بلوچستان کے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) کی جانب سے شہباز تاثیر کی بازیابی کے حوالے سے 'غلط' معلومات دینے کی تحقیقات کیلئے ایک کمیٹی قائم کی تھی۔

اس وقت چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ اس بات کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ آئی جی نے یہ کیوں کہا کہ شہباز تاثیر کو ایک آپریشن کے دوران بازیاب کروایا گیا ہے جبکہ ایسا نہیں ہوا۔

چوہدری نثار نے کمیٹی کو دو روز میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

ڈان نیوز کے مطابق کمیٹی کی جانب سے چوہدری نثار کو آج پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہباز تاثیر کو سیکیورٹی آپریشن کے دوران بازیاب نہیں کروایا گیا تھا اور انھیں اغواکاروں نے خود رہا کیا تھا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان کی رہائی کیلئے داد وصول کرے۔

خیال رہے کہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر کو 4 سال سے زائد عرصہ قبل نامعلوم افراد نے اغوا کرلیا تھا اور انھیں 8 مارچ کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر رہا کردیا گیا۔

ان کی رہائی کے حوالے سے متضاد دعوے کیے جارہے تھے۔

سیکیورٹی حکام کا کہنا تھا کہ وہ کوئٹہ سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر کچلاک کے علاقے سے ملے تھے۔

ان کی رہائی کے بعد بلوچستان کے آئی جی احسن محبوب نے دعویٰ کیا تھا کہ شہباز تاثیر کو کچلاک کے مضافات میں قائم ایک ہوٹل کے کپماؤنڈ سے بازیاب کروایا گیا۔

احسن محبوب نے ڈان کو بتایا تھا کہ 'حساس اداروں اور سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے کچلاک کے علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے شہباز تاثیر کو بازیاب کروایا'۔

انھوں ںے مزید کہا تھا کہ شہباز تاثیر بغیر کسی واقع کے بازیاب ہوئے اور ہوٹل کے کمپاؤنڈ پر کارروائی کے دوران سیکیورٹی فورسز کو کسی بھی قسم کی مزاہمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

مقامی افراد کا کہنا تھا کہ شہباز تاثیر خود ہوٹل آئے تھے، انھوں نے کھانا کھایا اس کا بل ادا کیا اور فون کال کرنے کیلئے فون طلب کیا تھا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انھیں اغوا کارواں نے پہلے ہی رہا کردیا تھا۔

طالبان کا شہباز تاثیر کے واقعے سے لاتعلقی کا اعلان

ڈان کے نمائندے کو بھیجے گئے ایک پیغام میں افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ شہباز تاثیر کے واقع سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے لوگ اس بارے میں کچھ نہیں جانتے اور اس واقع کو ہم سے منسوب کرنا درست نہیں'۔

خیال رہے کہ اس سے قبل میڈیا نے یہ رپورٹ کیا تھا کہ افغان طالبان نے داعش کے کیمپ پر حملہ کیا تھا اور انھوں نے یہاں قید شہباز تاثیر کو رہا کردیا تھا۔

افغان طالبان نے میڈیا کے مذکورہ دعوؤں کی تردید کی ہے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad khan Mar 13, 2016 01:02am
شہباز تاثیر کو کس نے اعوا کیا تھا وہ کہاں تھے کس کے پاس تھے کیوں اورکیسے رہا ھوئے یہ ایک معمہ ھے اسکے بارے میں اصل معلومات تاثیر خاندان اور اعواء کاروں کو ھوگی لیکن ایک بات صاف ھے کہ انکو کسی کاروائی یا اپریشن کے زریعے بازیاب نہیں کرایا بلوچستان پولیس ایف سی یا کسی اور ادارے کے اس قسم دعوے جھوٹ پر مبنی ھیں ھوٹل والا واقعہ ہی اصل بات ھے اسکے علاوہ کیا ھوا تھا اس پر پردہ ھے اور شہباز تاثیر اور انکے خاندان کیلئے یہی بہتر ھے باقی پاکستان میں کیا کچھ نہیں کہا جاتا لیکن جب وقت اتا ھے تو کچھ بھی نہیں ھوتا موجوده حکومت اور انکے اداروں کیلئے ائندہ اس قسم کی شرمندگی سے بچنے کیلئے باقائدہ مشورے اور مکمل تحقیق کے بعد ایک ہی بیان جاری کرنا چاہئے یا ایک ہی قِسم کا ھونا چاہئے