اسلام آباد: پنجاب میں فوج کی زیر قیادت شروع ہونے والےانسداد دہشت گردی آپریشن کے نتیجے میں سول-عسکری تناؤ پر غور کیلئے وزیر اعظم نواز شریف نے پیر کوفوجی سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی۔

وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک مختصر بیان میں بتایا گیا کہ نواز شریف نے ملکی اور داخلی سیکیورٹی امور پر ایک اعلی سطح کے اجلاس کی سربراہی کی۔

اجلاس میں وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نےوزیر اعظم کی معاونت کی جبکہ آئی ایس آئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر آرمی چیف کے ہمراہ موجود تھے۔

کچھ حلقے پنجاب آپریشن پر گزشتہ جمعرات سے اب تک ہونےوالی تین اعلی سطحی سول-عسکری ملاقاتوں کو مثبت پیش رفت قرار دے رہے ہیں تو وہیں کچھ مبصرین شکوک و شبہات ظاہر کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ اس سے پہلے پنجاب کے وزیراعلی شہباز شریف وزیر داخلہ اور پھر دوسری مرتبہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار ’دفاعی بجٹ کے امور‘ پر آرمی چیف سے جی ایچ کیو میں ملاقات کر چکے ہیں۔

ان ملاقاتوں میں فوج سول قیادت پر زور دیتی آئی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر لاہور خود کش دھماکے کے بعد صوبے میں شروع ہونے والے یک طرفہ فوجی آپریشن کی اونر شپ لے۔

دعوی کیا جاتا ہے کہ پنجاب حکومت کی مسلسل مزاحمت اور پولیس سمیت صوبائی قانو ن نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی صلاحیت میں کمی کی وجہ سے فوج یک طرفہ آپریشن شروع کرنے پر مجبور ہوئی۔

تاہم، ایک اہم نقطہ جس کے بارے میں زیادہ گفتگو نہیں کی جاتی وہ اس آپریشن کے بعد سول اورعسکری قیادت کے درمیان پیدا ہونے والی بد اعتمادی ہے۔

نجی گفتگو میں کچھ حکام الزام لگاتے ہیں کہ پنجاب پولیس ماضی میں اہم خفیہ معلومات افشا کرتی رہی ہے، جس سےصوبے میں آپریشن متاثر ہوئے۔

دوسری جانب، حکومت کا اصرار ہے کہ مسلح افواج سے مدد طلب کرنا صوبائی حکومت کا استحقاق ہے اور وہ ضرورت پڑنے پر خطرے کی نوعیت دیکھتے ہوئے اس کا فیصلہ کرے گی۔

کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ ان تین اعلی سطحی ملاقاتوں کے نتیجے میں باہمی تناؤ کتنا کم ہوا کیونکہ دونوں فریقین اس معاملے پر کھلے عام بات کرنے سے اجتناب کر رہےہیں۔

تاہم، کچھ حلقے وزیر اعظم ہاؤس کے مختصر بیان میں پنجاب آپریشن کا ذکر نہ ہونے کو کشیدگی برقرار ہونے کی علامت قرار دیتے ہیں۔

آئندہ کچھ دنوں میں پنجاب آپریشن کی شدت سے اس کا مستقبل واضح ہو جائے گا۔

فوج کہہ چکی ہے کہ صوبے میں آپریشن اسی شدت سے جاری رہے گا جیسے لاہور دھماکے کے بعد 28 مارچ کو شروع کیا گیا تھا۔

فوج کا کہنا ہے کہ وہ ملٹری انٹیلی جنس، رینجرز اور بعض موقعوں پر پولیس کی مددسے صوبے بھر میں کارروائیاں کر رہی ہے۔

فوج نے اب تک یہ نہیں بتایا کہ صوبے میں تاحال کتنے آپریشن اور گرفتاریاں کی گئیں۔

یہ خبر 5 اپریل، 2016 کے ڈان اخبار سے لی گئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Zaheer uddin Apr 05, 2016 02:13pm
theek hey na , sab ka operation hona chahye take pata chaley k kon kitna pani se baher hey.