اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے پاناما لیکس کے انکشافات کے بعد اثاثوں کی تفصیلات چھپانے پر وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیراعظم کے داماد کیپٹن صفدر اور وزیراعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے حمزہ شہباز کے خلاف الیکشن کمیشن میں نااہلی کا ریفرنس دائر کردیا۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے سردار لطیف کھوسہ، فیصل کریم کنڈی اور دیگر رہنماؤں نے 75 صفحات پر مشتمل ریفرنس دائر کیا۔

ریفرنس میں موقف اختیار کیا گیا کہ الیکشن لڑتے وقت وزیراعظم نواز شریف ساڑھے 6 ارب روپے کے ڈیفالٹر تھے جبکہ پاناما لیکس کے انکشافات کے بعد وزیراعظم نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے، لہذا انھیں نااہل قرار دیا جائے۔

واضح رہے کہ پاکستانی آئین کا آرٹیکل 62 اراکین پارلیمنٹ کی اہلیت اور 63 ان کی نااہلی سے متعلق ہے۔

ریفرنس میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیراعظم کے داماد کیپٹن صفدر اور وزیراعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے حمزہ شہباز کو بھی نااہل قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے 5 حلقوں کو خالی قرار دے کر ان پر ضمنی الیکشن کرائے جائیں۔

مزید پڑھیں:وزیراعظم کے داماد کی نااہلی کیلئے پٹیشن دائر

اس سے قبل الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا سے گفتگو میں سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے 2014 میں اعلان کیا کہ انھوں نے ساڑھے 4 ارب ادا کردیئے ہیں، جبکہ 2013 میں اسٹیٹ بینک نے انھیں ڈیفالٹر قرار دیا تھا، لہذا 2014 میں اگر وہ واجبات کلیئر کرتے بھی ہیں تو بھی وہ نااہل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چار، پانج ہزار روپے ٹیکس دینے والا ارب یا کھرب پتی نہیں ہوسکتا۔

سردار لطیف کھوسہ نے الزام عائد کیا کہ شریف برادران نے 1985 سے 1992 تک اپنے کالے دھندے کو سفید کرنے کے لیے قانون سازی کی اور کہا کہ اب کوئی انھیں پکڑ نہیں سکتا۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس:’حکومت ٹی او آرز پر ضد چھوڑ دے‘

سردار عبداللطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی میں حکومت کی صرف ایک ضد ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کا احتساب نہ ہو۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'دنیا کے جن رہنماؤں میں غیرت تھی، وہ مستعفی ہوگئے۔'

انھوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے ٹیکس چوری کی اور کسی غیر دیانتدار شخص کو اسمبلیوں تک پہنچنے سے روکنا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔

مزید پڑھیں:پیپلز پارٹی کا ٹی او آر کمیٹی سے الگ ہونے کا اصولی فیصلہ

یاد رہے کہ اس سے قبل 23 جون کو زرداری ہاؤس اسلام آباد میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی زیر صدارت پیپلز پارٹی کور کمیٹی کے اجلاس میں بلاول نے پاناما لیکس کے انکشافات کے بعد اثاثوں کی تفصیلات چھپانے پر وزیر اعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار، حمزہ شہباز اور کیپٹن صفدر کی نااہلی کے لیے الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی تھی۔

اجلاس میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے ٹی او آرز کی پارلیمانی کمیٹی سے لاتعلقی کا اصولی فیصلہ بھی کیا۔

واضح رہے کہ رواں سال اپریل میں آف شور کمپنیوں کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لاء فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقتور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

ان دستاویزات میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل ہیں۔

اس سلسلے میں وزیر اعظم نے ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا، تاہم اس کمیشن کے ٹی او آرز پر حکومت اور حزب اختلاف میں ابھی تک اتفاق نہیں ہو سکا۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (2) بند ہیں

حق نوازجیلانی Jun 27, 2016 04:24pm
حق نواز جیلانی آغاز کہاں سے کریں؟ پاکستان میں اس وقت ا حتساب کے متعلق دو قسم کے نظریات پر بحث چل رہی ہے ۔ایک قسم کے لوگوں کا خیال ہے کہ احتساب کا عمل اوپر سے شروع ہونا چاہیے یعنی سب سے پہلے وزیر اعظم ، صدر گورنرز اور وزرائے اعلیٰ ، وفاقی اور صوبائی وزرا سمیت اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہوئے اشخاص کا ' اس کے بعد احتساب کا یہ عمل آہستہ آہستہ نیچے کی طرف آجائے تو اس طرح معاشرے سے کرپشن ختم ہوسکتی ہے اور معاشرہ ٹھیک ہوسکتا ہے ' اس سوچ کے حامل لوگوں کا خیال ہے کہ معاشرہ ایسے ہی ٹھیک ہوگا ، حکمران جب تک جوابدہ نہ ہو'اس وقت تک عام آدمی بھی ٹھیک نہیں ہوسکتا ۔ دوسرے نظریے کے ماننے والے اس سے اتفاق نہیں کرتے بلکہ ان کے خیال میں معاشرے سے کرپشن لوٹ کھسوٹ اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک عام آدمی ٹھیک نہیں ہوتا'عام آدمی ہی نیچے سے اوپر جاتا ہے جو کرپشن یا لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہوجاتا ہے یا جب تک عام آدمی ٹھیک نہیں ہوتا اس وقت تک حکمران بھی ٹھیک نہیں ہوسکتے یعنی جیسا دیس ویسا بھیس۔ حکمران اسلئے کرپٹ ہوتے ہیں کیوں کہ ان کو معلوم ہے کہ عام لوگ بھی کرپٹ یا ظالم ہے 'اسلئے وہ بھی ٹھیک ہے'جو ان کے جی میں آتاہے وہ کرتے ہیں۔میں یہاں پر یہ عرض کروں کہ جب لوگ صحیح ہوں ، ان میں اخلاقی ، سماجی ، مذہبی،سیاسی شعور ہو تو اس معاشرے پر کسی حکمران کو کیوں مسلط کیا جائے گا؟یا اس معاشرے کے لئے قانون کیوں بنایا جائے گا ؟ اسلام میں یا اسلام سے پہلے کے واقعات کو دیکھتے ہیں تو تمام پیغمبروں کا آنا اسلئے ہوا کہ وہ لوگوں کو ہدایت کریں تاکہ لوگ صحیح ہوجائیں غلط کام چھوڑ دے اور ایک اللہ کومانیں ج
SMH Jun 28, 2016 03:44am
پاناما انکشافات: 'وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے'۔۔۔۔ کیاانکشاف سے پہلے تھے؟ کیاکوئ ایک بھی پاکستانی لیڈر صادق اورامین ہے؟