ڈھاکا: امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو ڈھاکا کے ریسٹورنٹ پر حملے کی تحقیقات میں معاونت کی پیشکش کردی۔

دوسری جانب بنگلہ دیشی پولیس اس بات کی تحقیقات کررہی ہے کہ کس طرح دولت مند اور پڑھے لکھے نوجوان شدت پسندی کی جانب مائل ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش ریسٹورنٹ حملہ: ’نشانہ غیر ملکی تھے‘

پولیس کا کہنا ہے کہ جمعے کو ڈھاکا کے ریسٹورنٹ پر حملہ کرنے والے تمام 6 حملہ آور مقامی تھے اور یہ پریشان کن امر ہے کہ اب تک مستحکم سیکولر جمہوری ملک سمجھے جانے والے بنگلہ دیش میں کس طرح شدت پسندانہ نظریات پروان چڑھ رہے ہیں۔

اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی، تنظیم نے پانچ جنگنجوؤں کی تصاویر بھی جاری کی ہیں جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ یہ نوجوان حملے میں ملوث تھے۔

ڈھاکا ریسٹورنٹ حملے میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کی میت اٹھائی جارہی ہے—فوٹو/ رائٹرز
ڈھاکا ریسٹورنٹ حملے میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کی میت اٹھائی جارہی ہے—فوٹو/ رائٹرز

دوسری جانب بنگلہ دیشی وزیر داخلہ اسد الزماں خان نے ان دعوؤں کو مسترد کردیا اور حملے کی ذمہ داری مقامی شدت پسند تنظیم جماعت المجاہدین بنگلہ دیش (جے ایم بی) پر عائد کی ہے۔

جے ایم بی بنگلہ دیش میں داعش کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے تاہم اس کے داعش کے ساتھ روابط کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

امریکی اسٹیٹ سیکریٹری جان کیری نے بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد کو ٹیلی فون کیا اور اس حملے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہیں تحقیقات میں وفاقی تحقیقاتی بیورو (ایف بی آئی) کی معاونت کی پیش کش کی۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش میں سیکولر بلاگر قتل

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان جان کربی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق جان کیری نے بنگلہ دیشی حکومت پر زور دیا کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات عالمی معیارات کے مطابق کرے اور اس سلسلے میں انہوں نے ایف بی آئی سمیت دیگر امریکی اداروں کی معاونت کی پیشکش کی۔

اسد الزماں خان نے برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو انٹرویو میں بتایا کہ گھر بیٹھے شدت پسند بننے والے افراد حالیہ دنوں میں اقلیتوں پر حملوں میں ملوث رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ڈھاکا ریسٹورنٹ کے 6 میں سے 3 حملہ آور گزشتہ چھ ماہ سے لاپتہ تھے۔

حملہ آوروں نے کیفے کو نشانہ بنایا اور وہاں موجود افراد کو یرغمال بنالیا تھا، انہوں نے مقامی افراد اور غیر ملکیوں کو علیحدہ کیا اور پھر 20 افراد کو قتل کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش میں ہندو پنڈت بے دردی سے قتل

سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں 6 حملہ آور مارے گئے تھے جبکہ ایک زخمی ہوگیا تھا جو اس وقت ہسپتال میں ہے۔

ہلاک ہونے والوں میں 9 اطالوی، 7 جاپانی، ایک امریکی اور ایک ہندوستانی شہری شامل تھا جبکہ ریسٹورنٹ کے اندر 2 بنگلہ دیشی بھی ہلاک ہوئے تھے۔

دہشت گردوں کے خلاف 12 گھنٹے تک جاری رہنے والے مقابلے میں 2 پولیس اہلکار بھی مارے گئے تھے۔

ڈھاکا میں 2005 کے بعد ہونے والا یہ بدترین حملہ تھا، اس سے قبل بنگلہ دیش میں سلسلہ وار بم دھماکوں میں 25 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور اس کی ذمہ داری جے ایم بی نے قبول کی تھی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں