اسلام آباد: پاناما اسکینڈل کو سامنے آئے چار ماہ گزرنے کے باوجود فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) آف شور سرمایہ کاریوں کے حوالے سے تحقیقات میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

پاکستان میں ٹیکس کے معاملات دیکھنے والے یہ ادارے پاناما پیپرز میں سامنے آنے والے پاکستانی شہریوں کی آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری اور ان کمپنیوں سے ہونے والی آمدنی کی تحقیقات میں تذبذب کا شکار نظر آرہے ہیں۔

ایک ٹیکس آفیسر نے بتایا کہ جن لوگوں کے نام پاناما پیپرز میں سامنے آئے ہیں ان کے خلاف کارروائی کے حوالے سے اب تک قانون کے تحت کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔

انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر کا کوئی عہدے دار اس معاملے پر آن ریکارڈ بات کرنے کیلئے بھی تیار نہیں کہ ٹیکس چوری اور دیگر معاملات کی تحقیقات کے حوالے سے کیا منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس: ایف بی آر کا تحقیقات کا فیصلہ

ایف بی آر کے ترجمان ڈاکٹر محمد اقبال سے موقف جاننے کیلئے رابطے کی کوششیں کی گئیں تاہم ان سے رابطہ ممکن نہ ہوسکا۔

ٹیکس قوانین کے مطابق ایف بی آر کو اس بات کی تحقیق کرنی چاہیے کہ پاکستانی شہریوں کی آف شور کمپنیاں قانونی کاروبار کے لیے قائم کی گئیں یا پھر محض غیر قانونی طور پر ٹیکس بچانے کیلئے استعمال کی جارہی ہیں۔

ایف بی آر کی طرح ایس ای سی پی نے بھی اس حوالے سے اب تک کوئی باضابطہ تحقیقات شروع نہیں کی ہیں۔

ایس ای سی پی کی ترجمان بشریٰ عالم نے بتایا کہ ہم نے اب تک پاناما پیپرز کے حوالے سے باضابطہ تحقیقات کا آغاز نہیں کیا ہے۔

ایف بی آر اور ایس ای سی پی انتظامی طور پر وزارت خزانہ کے ماتحت آتے ہیں اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار وزیر اعظم نواز شریف کے معتمد خاص ہیں۔

ایف بی آر کی جانب سے قومی اسمبلی میں تحریری طور پر پیش کی جانے والی وضاحت کے مطابق اگر پاکستان میں مقیم ایک شہری اپنی ٹیکس شدہ رقم سے کسی دوسرے ملک میں جائز کاروبار کے لیے آف شور کمپنی قائم کرتا ہے تو یہ غیر قانونی عمل نہیں۔

اس کے برعکس اگر پاکستان میں میں مقیم کوئی شخص اپنی خفیہ اور غیر ٹیکس شدہ رقم غیر قانونی طریقوں سے ملک سے باہر منتقل کرتا ہے اور ٹیکس بچانے اور منی لانڈرنگ کی غرض سے آف شور کمپنی قائم کرتا ہے تو یہ غیر قانونی عمل ہے۔

مزید پڑھیں:شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

ایف بی آر کی جانب سے اب تک اس بات کا تعین بھی نہیں کیا گیا کہ کن پاکستانیوں نے ٹیکس شدہ رقم سے آف شور کمپنی قائم کی اور کن لوگوں نے غیر ٹیکس شدہ رقم سے کمپنی بنائی۔

قومی اسمبلی کے 10 اگست کو ہونے والے اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن نفیسہ شاہ نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے تفصیلات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا کہ پاناما پیپرز میں شامل پاکستانی شہریوں کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے حوالے سے حکومت نے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں۔

اس حوالے سے تحریری جواب میں اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ ایف بی آر معلومات اکھٹی کررہا ہے لیکن انہوں نے تحقیقات شروع ہونے اور اس کے ختم ہونے کے حوالے سے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا تھا۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ جو بھی معلومات حاصل ہوں گی ان کی ایف بی آر کے ڈیٹا بیس اور ٹیکس دہندہ کے ریکارڈ سے تصدیق کی جائے گی۔

انہوں نے بتایا تھا کہ اگر یہ بات ثابت ہوئی کہ اس شخص نے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرائے ہیں اور اس کے اثاثوں اور آمدنی کی موجودہ اور جمع کرائی گئی تفصیلات میں ہم آہنگی پائی گئی تو اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ایف بی آر میں اس کا کوئی ریکارڈ نہ پایا گیا تو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 114 کے تحت اسے ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کیلئے نوٹس بھیجا جائے گا۔

عمران خان کے الزامات پر ایف بی آر کا رد عمل

ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ٹیکس مشینری ٹیکس دہندگان کا ڈیٹا کسی غیر متعلقہ شخص کو فراہم نہیں کرسکتی۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے ٹیکس حکام پر لگائے جانے والے الزامات کا باضابطہ طور جواب دیتے ہوئے ایف بی آر نے بیان جاری کیا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 216 کے تحت ٹیکس دہندگان کا ریکارڈ عام نہیں کیا جاتا۔

یہ بھی پڑھیں:پاناما پیپرز: پاکستانیوں کے متعلق انکشافات

عمران خان نے الزام عائد کیا تھا کہ ایف بی آر کے دو سینئر عہدے دار جن میں ان لینڈ ریوینیو آپریشنز کے رکن ڈاکٹر محمد ارشاد اور چیف انکم ٹیکس امجد زبیر شامل ہیں، ان دونوں کو وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے ٹیکس ریکارڈ کو تبدیل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ن لیگ کی حکومت ٹیکس ریکارڈ کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہی ہے تاہم ایف بی آر کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ریکارڈ محفوظ رکھنے اور اسے اپ ڈیٹ کرنے کا فول پروف خود کار طریقہ کار موجود ہے۔

کوئی بھی شخص قانونی طریقہ کار اور مروجہ اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس ریکارڈ میں تبدیلی نہیں کرسکتا۔

ایف بی آر کا کہنا ہے کہ تمام تفصیلات ایک محفوظ ڈیٹابیس میں محفوظ کی جاتی ہیں اور اس تک رسائی کی کوئی بھی کوشش خود ہی سسٹم میں ریکارڈ ہوجاتی ہے لہٰذا ریکارڈ میں چھیڑ چھاڑ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ایف بی آر کی جانب سے الزامات کو بے بنیاد اور جھوٹا قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ نیب کو غیر جانبداری سے اپنے فرائض انجام دینے کی اجازت دی جائے کیوں کہ یہی قومی مفاد میں بہتر ہے۔

ایف بی آر نے کہا کہ سیاستدانوں کو ایسے بیانات دینے سے قبل سوچنا چاہیے کہ اس کی وجہ سے ریاستی اداروں کی ساکھ کس قدر متاثر ہوتی ہے۔

یہ خبر 18 اگست 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں