نئی دہلی: ہندوستانی وزارت داخلہ نے اس بات کی تصدیق کردی کہ انہیں بلوچ علیحدگی پسند رہنما براہمداغ بگٹی کی انڈین شناختی کارڈ اور سفری دستاویز کے حوالے سے درخواست موصول ہوگئی جس کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

مقامی اخبار دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق براہمداغ بگٹی کی درخواست وزارت خارجہ امور کی جانب سے وزارت داخلہ کو بھیجی گئی ہے۔

ہندوستانی وزارت داخلہ کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ اس حوالے سے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جاسکتا تاہم براہمداغ بگٹی کی درخواست پر جلد از جلد کارروائی مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں:براہمداغ بگٹی کا ہندوستان میں سیاسی پناہ لینے کا فیصلہ

ان کا مزید کہنا تھا کہ شہریت حاصل کرنے سے قبل براہمداغ بگٹی کو متعدد تصدیقی مراحل سے گزرنا ہوگا اور اس حوالے سے حتمی فیصلہ وزیر اعظم نریندر مودی خود کریں گے۔

اخبار کے مطابق یہ صورتحال انتہائی پیچیدہ ہے اور وزارت داخلہ کے حکام سیاسی پناہ دینے کے عمل کا طریقہ کار کو چیک کرنے کے لیے 1959 کے ریکارڈز چھان رہے ہیں۔

یاد رہے کہ ہندوستان نے آخری بار 1959 میں تبتی باشندوں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کی پناہ کی درخواست مںظور کی تھی اور اس وقت وزیر اعظم جواہر لال نہرو تھے۔

اخبار کے مطابق براہمداغ بگٹی اس وقت سوئٹزرلینڈ میں ہیں جہاں سے وہ اپنی سیاسی سرگرمیاں چلا رہے ہیں جبکہ انہوں نے منگل 20 ستمبر کو جنیوا میں مستقل انڈین مشن کو پناہ کی درخواست جمع کرائی۔

مزید پڑھیں:'براہمداغ کی ہندوستانی شہریت بلوچستان میں مداخلت کا ثبوت'

رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے کسی مقامی قانون میں لفظ ’ ری فیوجی‘ کا ذکر نہیں اور نہ ہی اس نے اقوام متحدہ کے ری فیوجی کنونشن 1951 یا اس کے 1967 پروٹوکول پر دستخط کیے ہیں جس میں تارکین وطن کے حوالے سے میزبان ملک کے فرائض کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

براہمداغ بگٹی بلوچ ری پبلکن پارٹی کے بانی و صدر ہیں اور نواب اکبر بگٹی کے پوتے ہیں جو 2006 میں ایک فوجی کارروائی میں مارے گئے تھے۔

اخبار کے مطابق پاکستان نے الزام عائد کیا تھا کہ 2010 میں براہمداگ بگٹی کو جنیوا فرار ہونے میں ہندوستان نے مدد دی۔

ہندوستانی وزارت داخلہ کے عہدے دار نے بتایا کہ اگر براہمداغ بگٹی کی پناہ کی درخواست منظور ہوگئی تو انہیں طویل المعیاد ویزا جاری کیا جائے گا جس کی تجدید ہر سال کرنی ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ انہیں رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ جاری کردیا جائے جس کی بناء پر وہ کہیں بھی سفر کرسکتے ہیں۔

یہ خبر 24 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں