واشنگٹن: سفارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیائی تنظیم برائے علاقائی تعاون (سارک) میں بھارت کا اثر و رسوخ کرنے کے لیے عظیم تر جنوبی ایشیائی اقتصادی اتحاد کے قیام پر غور کررہا ہے۔

امریکا کے دورے پر موجود پاکستان کے پارلیمانی وفد نے جو اس وقت نیویارک میں ہے ، گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں اپنے پانچ روزہ دورے کے دوران یہ خیال پیش کیا تھا۔

وفد میں شامل سینیٹر مشاہد حسین سید نے میڈیا کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’عظیم تر جنوبی ایشیا کی بنیاد پہلے ہی ڈل چکی ہے جس میں چین، ایران اور وسط ایشیائی ریاستیں شامل ہیں‘۔

انہوں نے چین پاکستان اکنامک کوریڈور کو اہم اقتصادی راہداری قرار دیا جو جنوبی ایشیا کو وسط ایشیائی ریاستوں سے جوڑے گی۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ گوادر کی بندرگاہ نہ صرف چین بلکہ لینڈ لاک وسط ایشیائی ریاستوں کے لیے قریب ترین گرم پانی کا پورٹ ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: رکن ممالک کا شرکت سے انکار، سارک کانفرنس ملتوی

مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ بھارت بھی اس نئے اتحاد میں شامل ہو لیکن ممکن ہے کہ یہ پیشکش بھارت قبول نہ کریں کیوں کہ سارک سے اسے جو فوائد حاصل ہیں وہ اس پر مطمئن ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ بھارت نے پاکستان کو تنہا کرنے کے لیے سارک اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا تھا اور اس نے 15 اور 16 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

بھارت نے اُڑی حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے سارک سمٹ کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا تاہم پاکستان نے اس الزام کو سختی سے مسترد کردیا تھا اور اب تک بھارت نے بھی کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔

اس کے بعد افغانستان، بنگلہ دیش اور بھوٹان نے بھی بھارت کی پیروی کرتے ہوئے سارک اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

ان ممالک کے بائیکاٹ کی وجہ سے سارک سربراہ کانفرنس کو ملتوی کرنا پڑا تھا اور اس طرح پاکستان نے خود کو سارک گروپ میں تنہا پایا جہاں کبھی اس کا اہم کرادر ہوا کرتا تھا۔

سارک کے 8 رکن ممالک میں سے افغانستان اور بنگلہ دیش بھارت کے قریبی اتحادی ہیں جبکہ بھوٹان ہر طرف سے بھارت سے گھرا ہوا ہے اور اتنا چھوٹا ملک ہے کہ وہ نئی دہلی کے اقدام پر مزاحمت نہیں کرسکتا۔

اس کے علاوہ مالدیپ ، سری لنکا اور بھوٹان کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن یہ ممالک بھی اتنے طاقتور نہیں کہ بھارت کا مقابلہ کرسکیں۔

مزید پڑھیں: ’پاکستان کی پالیسی سازی میں عسکریت پسندی کا کوئی عمل دخل نہیں‘

ایک سینیئر سفارتکار نے اس بات کی تصدیق کی کہ پاکستان نیا علاقائی ڈھانچہ ترتیب دینے کے لیے انتہائی سرگرم ہے اور بظاہر پاکستان کو اس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ سارک کی موجودہ حالت میں ہمیشہ ہی اس پر بھارت کا غلبہ رہے گا۔

ایک اور سفارتکار نے کہا کہ ’پاکستان کو امید ہے کہ جب بھی بھارت اپنا فیصلہ اس پر تھوپنے کی کوشش کرے گا نیا انتظام اسے اپنے فیصلے خوش اسلوبی سے کرنے میں معاون ثابت ہوگا‘۔

واشنگٹن میں سفارتی مبصرین کہتے ہیں کہ مجوزہ اتحاد چین کے لیے بھی موزوں ہے کیوں کہ وہ بھی خطے میں بھارت کے تیزی سے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے پریشان ہے۔

مبصرین کا موقف ہے کہ اس نئے انتظام میں شمولیت کے لیے چین وسط ایشیائی ریاستوں اور ایران کو آمادہ کرسکتا ہے۔

تاہم دیگر مبصرین نے خبردار کیا کہ سارک ممالک کی اس تجویز کی حمایت کرنے میں دلچسپی کم ہوگی کیوں کہ اس میں بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا کے لیے زیادہ فائدہ نہیں کہ وہ اپنی سرحدوں سے دور ایک زمینی راستے کا حصہ بنیں جبکہ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے پاس تو اپنی بندرگاہیں بھی موجود ہیں۔

سارک کا وہ رکن جسے اس عظیم تر جنوبی ایشیائی اتحاد سے سب سے زیادہ فائدہ ہوسکتا ہے وہ افغانستان ہے جس کے چاروں طرف زمین ہے اور کوئی بھی تجارتی راہداری جو جنوبی ایشیا کو وسط ایشیا سے جوڑتی ہو وہ افغانستان کے لیے بہت فائدہ مند ہوگی۔

مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان کے بھارت سے انتہائی قریبی تعلقات ہیں لہٰذا وہ کسی ایسے اتحاد میں شمولیت پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرسکتا ہے جس سے بھارت کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہو۔

افغانستان نے سارک کی رکنیت کے لیے 2006 میں درخواست دی تھی اور اس وقت افغانستان کے جنوبی ایشیائی ملک ہونے کے حوالے سے دلچسپ بحث چھڑ گئی تھی کیوں کہ افغانستان ایک وسط ایشیائی ریاست ہے۔

سارک ممالک نے افغانستان پر شرط رکھی تھی کہ وہ پہلے عام انتخابات کرائے جس کے بعد وہاں 2005 کے آخر میں انتخابات ہوئے اور پھر اپریل 2007 میں افغانستان سارک کا آٹھواں رکن بن گیا۔

ایک جنوبی ایشیائی سفارتکار نے نشاندہی کی کہ اگر عظیم تر جنوبی ایشیا کا خیال حقیقت بن بھی جاتا ہے تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اس کے ارکان بھارت کے ساتھ تنازعات میں پاکستان کی حمایت کریں گے۔

سفارتکار نے کہا کہ ’کئی وسط ایشیائی ریاستیں ایسی ہیں جن کے بھارت اور ایران کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں اور انہیں پاکستان سے اختلافات ہیں‘۔

یہ خبر 12 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں