اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے ان رپورٹس سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے، جن کے مطابق افغان طالبان کا ایک وفد حال ہی میں اسلام آباد آیا اور پاکستانی حکام کو افغان حکومت کے ساتھ قطر میں ہونے والے 'خفیہ مذاکرات' کے حوالے سے بریفنگ دی۔

ڈان نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا، 'وفود آتے رہتے ہیں اور اس سے پہلے بھی آئے تھے، لیکن ابھی اس حوالے سے کوئی تصدیق نہیں کی جاسکتی'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے پہلے بھی برطانوی اخبار گارجین نے قطر میں افغان طالبان اور کابل حکام کے خفیہ مذاکرات کی رپورٹ دی تھی، جس کی طالبان نے تردید کردی تھی۔

سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ افغان میں امن کے لیے ہر کوئی کوشش کر رہا ہے اور اس مقصد کے لیے کام کرنے والے چار ملکی گروپ کی کوششیں بھی جاری ہیں تاکہ وہاں امن قائم کیا جاسکے۔

سرتاج عزیز کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے اس حوالے سے خبر دی کہ طالبان کے 3 سینئر ارکان پر مشتمل وفد نے حال ہی میں اسلام آباد میں پاکستانی عہدیداران سے متعدد ملاقاتیں کیں اور انھیں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قطر میں ہونے والے حالیہ مذاکرات کے بارے میں بریفنگ دی۔

مزید پڑھیں:'طالبان کی کابل سے خفیہ مذاکرات پر پاکستان کو بریفنگ'

اے پی کے مطابق پاکستان میں تعینات افغان سفیر حضرت عمر زاخیل وال نے بتایا کہ وہ ان ملاقاتوں کے بارے میں واقف ہیں تاہم انھوں نے تفصیلات بتانے سے معذرت کرلی۔

رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ طالبان وفد کو رواں ہفتے پاکستان بھیجا گیا، جن میں ملا سلام حنفی اور ملا جان محمد بھی شامل تھے جو طالبان کے دور حکومت میں سابق وزراء رہ چکے ہیں، جبکہ مولوی شہاب الدین دلاور سعودی عرب اور پاکستان میں سابق افغان سفیر رہ چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:افغان حکومت اورطالبان میں ’خفیہ مذاکرات‘

گذشتہ دنوں برطانوی اخبار گارجین نے رپورٹ کیا تھا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان خفیہ مذاکرات کا سلسلہ ستمبر سے دوبارہ شروع ہوچکا ہے جبکہ بیشتر ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ اب تک مذاکرات کے دو دور قطر میں مکمل ہوچکے ہیں۔

دوسری جانب افغان نیوز ویب سائٹ طلوع نیوز نے صدارتی محل ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ افغان انٹیلی جنس کے چیف محمد معصوم اسٹانکزئی اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر محمد حنیف اتمار نے بھی قطر میں ہونے والی ایک ملاقات میں شرکت کی۔

مزید پڑھیں:افغان حکومت سے 'خفیہ مذاکرات' نہیں کیے: طالبان

تاہم طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک بیان میں اس قسم کے مذاکرات یا ملاقات کی رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'امارات اسلامیہ کے نمائندوں کی اسٹانکزئی یا کسی اور عہدیدار سے ملاقات نہیں ہوئی، مذاکرات کے حوالے سے ہمارے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، ہماری پالیسی اس حوالے سے بالکل واضح ہے'۔

واضح رہے کہ طالبان طویل عرصے سے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ غیر ملکی افواج کے افغانستان سے مکمل انخلاء کے بغیر وہ حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے۔

اس سے قبل پاکستان کی مدد سے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں کچھ پیشرفت دیکھی گئی تھی لیکن پھر امریکا کی جانب سے مئی میں کیے جانے والے ڈرون حملے میں طالبان رہنما ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد مذاکرات کا عمل مکمل طور پر رک گیا تھا۔

نئے طالبان رہنما ہیبت اللہ اخونزادہ کے معاملات سنبھالنے کے بعد گذشتہ چند ماہ کے دوران افغانستان میں ہونے والی طالبان کارروائیوں میں تیزی دیکھی گئی ہے۔

دوسری جانب امریکا کی طرف سے کابل کو مسلسل فضائی اور فوجی مدد فراہم کرنے کا سلسلہ جاری ہے تاکہ طالبان افغانستان میں اپنے قدم مضبوط نہ کرسکیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں