اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی نے ریئل اسٹیٹ ایجنٹس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ تاجروں جیسا برتاؤ نہ کریں، جو ٹیکس کے معاملے پر حکومت سے کیے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

ذیلی کمیٹی کے شریک چیئرمین میاں عبد المنان کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم ان ٹیکس ریٹس پر عملدرآمد کردیں، جس کی آپ (ریئل اسٹیٹ ایجنٹس) تجویز دے رہے ہیں، تو اس کے اگلے ہی روز آپ سب اس کے خلاف شکایتیں کر رہے ہوں گے۔‘

ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں ملک کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے بلڈرز، ڈویلپرز اور ریئل اسٹیٹ ایجنٹس نے شرکت کی۔

اجلاس کے دوران میاں عبد المنان کا مزید کہنا تھا کہ ’تاجروں سے کہا گیا تھا کہ اگر ود ہولڈنگ ٹیکس کم کیا جاتا ہے تو وہ تاجروں کو ٹیکس فائلر بنانے کے لیے کوئی طریقہ بتائیں، لیکن اسکیم متعارف کرانے کے بعد 10 ہزار تاجروں نے بھی اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔‘

ریئل اسٹیٹ ایجنٹس کی جانب سے پراپرٹی ٹرازیکشنز پر ٹیکس ریٹ کو مارکیٹ ریٹ کا ایک فیصد رکھنے کی تجویز کا حوالہ دیتے ہوئے میاں عبد المنان نے کہا کہ ’اب آپ ناصرف اپنی بات سے پیچھے ہٹ رہے ہیں، بلکہ کمیٹی کو نئی تجویز بھی دے رہے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیں: جائیداد کی قیمتوں کا تعین اسٹیٹ بینک نہیں ایف بی آر کرے گا

ٹیکس کی شرح میں اضافہ

حکومت نے رواں سال جولائی میں ریئل سیکٹر سے مذاکرات کے بعد ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) کے آفس میں درج پراپرٹی کے کم سے کم ریٹ کے علاوہ پراپرٹی ٹرانزیکشنز پر ٹیکس کی شرح میں بھی اضافہ کردیا تھا۔

ڈپٹی کمشنر کے آفس میں درج پراپرٹی کے کم سے کم ریٹ میں بھی اضافہ ہوا تاہم ملک بھر میں یہ ریٹس، اس اصل مارکیٹ قیمت سے اب بھی کئی گنا کم ہیں جن پر پراپرٹی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔

اجلاس کے آغاز میں ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی رشید گوڈیل نے ریئل اسٹیٹ ایجنٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ہم بھی عوام کا حصہ ہیں اور ہم زمینی حقائق جانتے ہیں، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اگر کوئی پراپرٹی 3 کروڑ روپے میں فروخت کی جاتی ہے تو رجسٹری میں اس کی قیمت 50 لاکھ روپے دکھائی جاتی ہے، کیونکہ ڈی سی ریٹس اب بھی بہت کم ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنا چاہتی ہے۔

مزید پڑھیں: پراپرٹی ویلیوایشن:اسٹیٹ ایجنٹس اور بلڈرز اسلام آباد طلب

اجلاس کے دوران ایک ریئل اسٹیٹ ایجنٹ نے کمیٹی اراکین کو یہ کہہ کر قائل کرنے کی کوشش کی کہ ملک میں ٹیکس جمع کرنے کے نظام اور طریقہ کار میں خرابیاں ہیں اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) تجارتی سرگرمیوں میں رکاوٹیں حائل کر رہا ہے۔

ٹیکس جمع کرنے کے حوالے سے رشید گوڈیل نے ریئل اسٹیٹ ایجنٹس سے ان کے مسائل دریافت کیے۔

اجلاس کے دوران ایک موقع پر کمیٹی اراکین اور ریئل اسٹیٹ ایجنٹس کے نمائندوں کے درمیان گرما گرمی کا ماحول بھی دیکھنے میں آیا۔

بعد ازاں فیصلہ کیا گیا کہ ذیلی کمیٹی ریئل اسٹیٹ ایجنٹس کی تجاویز قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بھیجے گی۔


یہ خبر 22 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Nov 22, 2016 06:57pm
السلام علیکم: اگر 3 کروڑ کی پراپرٹی کو رجسٹری میں 50 لاکھ کی ظاہر کیا جاتا ہے تو باقی ڈھائی کروڑ کہاں جاتے ہیں؟ کوئی ہے جو مجھے بتا دیں۔ شکریہ ایڈوانس میں۔ خیرخواہ