حیدرآباد: سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ نے وفاقی حکومت کو حیدرآباد اور جامشورہ میں قائم پاک ترک ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی شاخوں میں کام کرنے والے عملے کے خلاف 20 دسمبر تک کسی بھی قسم کی کارروائی سے روک دیا ہے۔

جسٹس صالح الدین پہنور اور جسٹس محمد اقبال مہر پر مشتمل سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی یہ درخواست ایڈووکیٹ آیات اللہ خواجہ نے جمع کرائی تھی۔

درخواست میں عدالت سے یہ استدعا کی گئی تھی کہ مذکورہ معاملے پر پشاور ہائی کورٹ نے بھی عبوری ریلیف کا اعلان کیا ہے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ نے اس حوالے سے حکام کو کسی بھی قسم کی تادیبی کارروائی کرنے سے روک دیا ہے۔

مزید پڑھیں: پاک ترک اسکولز کے عملے کو ملک چھوڑنے کا حکم

انھوں نے کہا کہ اسی قسم کا ریلیف یہاں موجود درخواست گزار بھی چاہتے ہیں۔

جس پر عدالت نے وزارت داخلہ کے حکام اور ڈپٹی اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا، جس کے مطابق 20 دسمبر تک اس حوالے سے جواب جمع کرایا جائے، عدالت نے اس وقت تک درخواست گزاروں کے خلاف کسی بھی قسم کی تادیبی کارروائی کرنے سے گریز کرنے کا حکم بھی جاری کیا۔

درخواست گزاروں کا مؤقف تھا کہ ان کے بچے حیدرآباد اور جامشورو میں قائم پاک ترک ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی شاخوں میں زیر تعلیم ہیں اور ان میں سے کچھ اپنی تعلیم اور تجربے کی بنیاد پر مختلف خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سب کے باوجود وزارت داخلہ نے ان کو ملک چھوڑنے کیلئے 14 نومبر کو حکم نامہ جاری کیا تھا، انھوں نے مؤقف اختیار کیا کہ درخواست گزار مذکورہ تعلمی اداروں میں تعلیم دے رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاک ترک اسکولز کے اساتذہ کو وزارت داخلہ سے رجوع کرنے کا حکم

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ وزارت داخلہ کے جاری نوٹیفکیشن کو غیر قانونی قرار دیا جائے، ان کا مزید کہنا تھا کہ حکام کو حکم دیا جائے کہ تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے عملے کو تعلیمی سیشن مکمل ہونے تک اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی اجازت دی جائے۔

یاد رہے کہ رواں سال جولائی میں ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد ترک وزیر خارجہ نے 2 اگست کو اسلام آباد میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ ترک حکومت کے مخالف مبلغ فتح اللہ گولن کی سرپرستی میں چلنے والے پاک ترک اسکول کو بند کیا جائے، جس کے بعد پاکستان میں موجود پاک ترک اسکولز غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔

یہ اسکولز پاک ترک انٹرنیشنل اسکولز اینڈ کالجز نیٹ ورک کے تحت قائم کیے گئے تھے تاہم ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد ترک حکام نے فتح اللہ گولن سے وابستہ افراد اور اداروں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کررکھا ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ ترک سفیر کے اس مطالبہ پر انتہائی سنجیدگی سے غور کررہا ہے اور اس حوالے سے سیکریٹری خارجہ نے ایک اجلاس کی سربراہی بھی کی جس میں اس مطالبے پر عمل درآمد کے حوالے سے آپشنز کا جائزہ لیا گیا۔

مزید پڑھیں: 'پاک ترک اسکولز کے انتظامی عہدوں میں تبدیلی'

اسلام آباد، لاہور، کوئٹہ، کراچی، حیدرآباد، خیر پور اور جامشورو میں موجود تقریباً 28 اسکولوں کے اس نیٹ ورک میں اسٹاف کی تعداد تقریباً 1500 ہے جبکہ زیر تعلیم طلباء کی تعداد 10 ہزار کے قریب ہے جو پرائمری تا اے لیول تک تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

پاک ترک ایسوسی ایشن کے سندھ میں ڈائریکٹر ایجوکیشن علی یلماز کہتے ہیں کہ 1995 سے ہمارے تعلیمی ادارے پاکستانی طالب علموں کو اعلیٰ معیار کی تعلیم فراہم کررہے ہیں اور ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے اور نہ ہی کسی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

خیال رہے کہ اس معاملے پر پاک ترک اسکولز کے اساتذہ اور دیگر عملے نے اسلام آباد اور پشاور ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا ہے.

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں