کراچی میں مسافر بس الٹنے کے نتیجے میں 4 افراد جاں بحق اور 11 زخمی ہوگئے۔

کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں یونیورسٹی روڈ پر یہ حادثہ بیت المکرم مسجد کے قریب پیش آیا۔

ابتدائی رپورٹ کے مطابق تیز رفتار بس ڈرائیور سے بے قابو ہوکر بیت المکرم مسجد کے قریب بس اسٹاپ پر کھڑے لوگوں پر چڑھ گئی جس کے نتیجے میں 4 افراد ہلاک ہوگئے جن میں تین خواتین شامل ہیں۔

خواتین میں سے دو یونیورسٹی کی طالبات تھیں۔

حادثہ تیز رفتاری کی وجہ سے نیپا چورنگی سے حسن اسکوائر جانے والی سڑک پر پیش آیا۔

حادثے کے بعد ایمبولینسز اور رضا کار فوری طور پر پہنچ گئے جنہوں نے لاشوں اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا۔

جاں بحق ہونے والی خواتین کی شناخت رابعہ حسین، کرن ظفر اور آمنہ بتول کے نام سے ہوئی۔

حادثے کے بعد ڈرائیور اور کنڈیکٹر موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے جبکہ پولیس نے بس کو اپنے قبضے میں لے لیا۔

واضح رہے کہ یونیورسٹی روڈ پر ترقیاتی کام جاری ہے جس کی وجہ سے اس مصروف ترین شاہراہ پر ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی کا قاتل ٹریفک جام

ڈی آئی جی ٹریفک ایسٹ عارف حنیف نے بھی واقعے کو تیز رفتاری کا نتیجہ قرار دیا۔

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے حادثے کے ذمے دار ڈرائیور کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔

ڈان نیوز کے مطابق ڈی آئی جی ٹریفک آصف اعجاز شیخ نے بھی حادثے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا تیز رفتار گاڑیوں کے خلاف احکامات مل گئے ہیں سخت کارروائی کی جائے گی۔

وزیر ٹرانسپورٹ سندھ ناصر حسین شاہ کہتے ہیں ٹریفک حادثات ترقیاتی کاموں کے باعث نہیں بلکہ ڈرائیورز کی غفلت اور تیز رفتاری کے باعث ہوتے ہیں۔

ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ذمے دار ڈرائیور کو گرفتار کرکے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

حادثے کی وجہ تیز رفتاری اور اوور لوڈنگ

میئر کراچی وسیم اختر بھی حادثے کے بعد فوری طور پر یونیورسٹی روڈ پہنچے جہاں انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حادثے کی وجہ تیز رفتاری اور اوور لوڈنگ بتائی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'کچھ دیر قبل میں ترقیاتی کاموں کا معائنہ کرنے کے لیے یونیورسٹی روڈ پر ہی موجود تھا تاہم جب میں صفورا پہنچا تو حادثے کی اطلاع ملی'۔

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی روڈ پر سڑک زیر تعمیر ہے لہٰذا شہریوں کو چاہیے کہ وہ تیز رفتاری سے گریز کریں۔

میئر کراچی نے کہا کہ ذمہ داری ڈرائیور کی ہے کہ وہ اوور لوڈ اور تیز رفتاری نہ کرے کیوں کہ پورے شہر میں ہی سڑکوں کو یہی حال ہے، ٹرانسپورٹ کا برا حال ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'میری جگہ یہاں وزیر داخلہ سندھ کو ہونا چاہیے تھا کیوں کہ ٹرانسپورٹ کا نظام ان کے زیر انتظام آتا ہے'۔

واضح رہے کہ کراچی میں ٹریفک حادثات کے حوالے سے گزشتہ برس ایک رپورٹ منظر عام پر آئی تھی جس کے مطابق 2016 کے ابتدائی 4 مہینوں میں جنوری سے اپریل کے دوران ہر2 دن میں 5 جان لیوا حادثات ہوتے رہے۔

اس رپورٹ کو پیش کرتے ہوئے ڈی آئی جی ٹریفک ڈاکٹر عام شیخ نے بتایا تھا کہ کراچی میں ہر سال 30 ہزار حادثات رپورٹ ہوتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 90 فیصد حادثات میں ہلاکتیں ہوتی ہیں جبکہ قصورواروں کو کوئی سزا نہیں مل پاتی۔

انہوں نے تیز رفتاری کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ انتباہ جاری کرنے کے باوجود لوگ تیز رفتاری بہت پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔

مزید پڑھیں: 'کراچی میں ٹریفک جام کی وجہ ترقیاتی کام'

ڈی آئی جی نے ان حادثات کے 3 بڑے عوامل بتائے تھے جن میں ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر ناتجربہ کار ڈرائیورز کا گا ڑیاں چلانا، تیز رفتاری اور بغیر اشارہ دیئے اوورٹیکنگ کرنا شامل ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق ملک کے سب سے بڑے شہر کے 60 فیصد ڈرائیورز کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہے، اسی وجہ سے ٹریفک کے کنٹرول کے ساتھ ساتھ 'لاپرواہ ڈرائیورز' کو قابو کرنے میں مسائل کا سامنا رہتا ہے۔

ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شاہراہوں پر قائم مختلف چوراہوں پر 38 لاکھ گاڑیوں کی نقل و حرکت کو سنبھالنے کے لیے صرف 3 ہزار 200 ٹریفک پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق کراچی کی سڑکوں پر چلنے والی ٹرانسپورٹ میں یومیہ 908 گاڑیوں کا اضافہ ہوتا ہے۔

شہر میں اوسطاً ایک ٹریفک پولیس اہلکار کو 1031 گاڑیوں کو سنبھالنا ہوتا ہے، جن میں سے 54.87 فیصد موٹر سائیکلیں ، گاڑیاں 32.6 فیصد اور رکشہ 5.5 فیصد ہوتے ہیں۔


تبصرے (0) بند ہیں