لاہور: جمعرات کی دوپہر ایک خاتون کو گلبرگ کے علاقے میں واقع اپنی بیٹی کے اسکول سے فون کال موصول ہوئی، فون کرنے والے نے انھیں آگاہ کیا کہ ایک گھنٹہ قبل ڈی ایچ اے میں ہونے والے دھماکے کی وجہ سے اسکول نے والدین کو اجازت دے دی ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو چھٹی سے قبل ہی آکر گھر لے جائیں۔

جیسے ہی وہ اسکول کی طرف روانہ ہوئیں، ایک دوست نے فون پر میسج کرکے انھیں آگاہ کیا کہ ایک نیوز چینل گلبرگ میں واقع اسکول سے قریب امریکی فاسٹ فوڈ کے آؤٹ لیٹ کے قریب دھماکے کی 'غیرمصدقہ' اطلاعات نشر کررہا ہے۔

رونے کے باعث سوجی ہوئی آنکھوں اور گھٹی گھٹی آواز میں ان خاتون نے اپنی بیٹی کی ہم جماعت کی والدہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'اُس وقت مجھے لگا کہ جیسے واقعی میری جان نکل چکی ہے، دوست کا پیغام پڑھ کر میرا ذہن اور جسم مکمل طور پر سُن ہوچکا تھا، مجھے نہیں معلوم میں نے کس طرح گاڑی چلانا شروع کی اور بچی کے اسکول فون کرنا شروع کیا، لیکن فون پر رابطہ ہی نہیں ہو پارہا تھا'۔

اسکول انتظامیہ سے رابطہ نہ ہونے کے بعد انھوں نے خود کو سنبھالا اور خطرناک انداز میں گاڑی چلاتے ہوئے بچی کے اسکول کی جانب روانہ ہوئیں جہاں سخت سیکیورٹی ان کی منتظر تھی۔

مزید پڑھیں: لاہور: ڈیفنس میں دھماکا، 10 افراد جاں بحق

رینجرز اور پولیس نے گلبرک کے علاقے میں واقع انٹرنیشنل فاسٹ فوڈ چین کے اطراف کے علاقے کو سیل کر رکھا تھا، وہیں موجود ایک پولیس اہلکار نے انہیں اسکول تک جانے کے لیے متبادل راستہ اختیار کرنے کی ہدایت کی۔

مذکورہ خاتون جو دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی ماں ہیں، نے ڈان کو بتایا 'جب میں نے وہاں موجود پولیس اہلکاروں سے دریافت کیا کہ یہاں کیا ہورہا ہے، کیا رینجرز صرف ریسٹورنٹ کی تلاشی لے رہے ہیں یا اسکول سمیت تمام عمارتوں کی تو انہوں نے تصدیق یا نفی کرنے سے انکار کردیا اور مجھے اس مقام سے جانے کا کہتے رہے'۔

یہ واحد خاتون نہیں تھیں جنہیں اس پریشانی سے گزرنا پڑا، دیگر بچوں کے والدین کا بھی ملا جلا تجربہ رہا، کئی بچوں کے والدین دھماکے کی خبر سنتے ہی اسکول کی جانب روانہ ہوگئے تو متعدد کو اسکول انتظامیہ کی جانب سے فون اور میسج کے ذریعے اطلاع دی گئی کہ وہ اپنی بچیوں کو آ کر اسکول سے لے جائیں۔

اسکول کے باہر متعدد والدین کو روتے اور اسکول کے اندر بچوں کو اپنے والدین کا منتظر دیکھا جاسکتا تھا۔

اے لیول کے ایک طالب علم کے مطابق، 'یہ کلاسز کے درمیان ملنے والی مختصر بریک کا وقت تھا، جب ان کے اساتذہ کے فون اچانک بجنا شروع ہوئے، سب ہی ڈیفنس میں ہونے والے دھماکے اور پھر گلبرگ کے علاقے میں ہونے والے دوسرے دھماکے کی 'خبر' پر بات کررہے تھے۔

طالب علم نے بتایا کہ 'ہمارے اسکول کے منتظم نے ہمیں اپنے گھر فون کرنے کی تاکید کی تاکہ والدین ہمیں آکر جلدی گھر لے جائیں، سارے ہی بچے ڈرے ہوئے تھے اور اس بات سے لاعلم تھے کہ اسکول کی دیوار کے باہر کیا ہورہا ہے'۔

'اب کوئی بھی خود کو محفوظ تصور نہیں کرتا'

شہر لاہور دہشت گرد حملوں سے انجان نہیں، گذشتہ ایک دہائی کے دوران شہر کے باسی عوامی مقامات اور مزاروں پر ہونے والے خودکش و فرقہ وارانہ حملوں میں سیکڑوں اموات دیکھ چکے ہیں، والدین کو بھی یاد ہے کہ وہ کس طرح اپنے بچوں کو کئی دن اسکول بھیجنے یا عوامی مقامات پر لے جانے سے گریز کرتے رہے ہیں، متعدد تو اپنی موت کے خوف پر بھی قابو پا چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور دھماکا 'رد الفساد' کا رد عمل: ترجمان پنجاب حکومت

لیکن رواں ماہ پنجاب اسمبلی کے سامنے چیئرنگ کراس پر جاری احتجاج کے دوران ہونے والے خودکش حملے سے شروع ہونے والی حالیہ دہشت گرد حملوں کی لہر نے ملک بھر میں خوف کو مزید بڑھا دیا ہے اور جمعرات (23 فروری) کے دھماکے نے اس دہشت میں مزید اضافہ کیا۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اپنا موقف دینے والے ایک کمپنی کے ایگزیکٹیو کا کہنا تھا 'حالیہ دھماکوں نے سب کو لرزا دیا ہے، یہ نئی لہر خطرناک لگتی ہے اور اس سے پہلے ہونے والے حملوں سے مختلف ہے، عسکریت پسند زیادہ قریب معلوم ہوتے ہیں اور وہ اس بار ہمارے گھروں کے قریب حملے کر رہے ہیں'۔

ماضی کے برعکس تاجر بھی ان خطرات اور مارکیٹوں کے اچانک بند ہونے پر تشویش کا شکار ہیں جبکہ عام طور پر گاہکوں سے بھرے ریسٹورنٹس بھی ویران نظر آنے لگے ہیں۔

ایک تاجر نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا 'اب کوئی بھی خود کو محفوظ تصور نہیں کرتا، ہر کوئی ایک دوسرے کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ شاپنگ مالز، مارکیٹوں اور ریسٹورنٹس جانے سے گریز کریں، لوگ خوفزدہ ہیں'۔

کئی افراد ایسے بھی ہیں جو خوف کی اس فضا کا ذمہ دار الیکٹرانک میڈیا اور حکومت کو ٹھہراتے ہیں۔

لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز کے پروفیسر کے مطابق 'اگر چند نشریاتی ادارے افواہوں کو مصدقہ خبر بنا کر پیش کرنے کے ذمہ دار ہیں تو پنجاب حکومت نے بھی کوئی اچھا تاثر نہیں دیا، حکومت مسلسل ڈیفنس میں ہونے والے بم دھماکے کو حادثہ قرار دینے کی کوشش کرتی رہی، یہاں تک کہ حکومتی نفی بھی بےفائدہ رہی'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'وزراء اور حکام بھی لوگوں میں بےچینی اور عوامی خوف بڑھانے کا سبب بنے، صرف اس لیے کہ وہ خود کو کمزور اور غیر مؤثر نہیں ثابت کرنا چاہتے تھے، اس طرح کا ردعمل رینجرز کو مزید اختیارات دینے کے مطالبے کو تقویت بخش سکتا ہے'۔

پروفیسر کا مزید کہنا تھا کہ جنرل ہسپتال کی انتظامیہ نے ہسپتال کے احاطے میں میڈیا کے داخلے اور لائیو کوریج پر پابندی عائد کرکے ایک اچھا فیصلہ کیا۔

ان کے مطابق' میڈیا کے لوگ اس بات کا اندازہ نہیں کرسکتے کہ ان کی مداخلت سب کے لیے کتنا بڑا خطرہ بن سکتی ہے، علاوہ ازیں وہ زخمیوں کو طبی امداد کی فراہمی کی راہ میں بھی رکاوٹ بن سکتے ہیں'۔

لمز کے پروفیسر کا کہنا تھا کہ 'گذشتہ سال اگست میں کوئٹہ کے ہسپتال اور کراچی کے جناح ہسپتال میں ہونے والی 100 اموات میڈیا کے لیے کافی ہونی چاہئیں کہ وہ زخمیوں کے پیچھے ہسپتالوں کا رخ کرنے اور عسکریت پسندوں کے لیے موافق حالات پیدا کرنے سے گریز کریں'۔

باوجود اس کے کہ ٹی وی چینلز نے گلبرگ دھماکے کے حوالے سے افواہیں نشر کیں، ایک صحافی کا کہنا ہے 'وہ ایک مشکل وقت تھا، آیا ہم اپنے ناظرین اور قارئین کو آگاہ کریں یا رانا ثناءاللہ کی طرح معاملے کو دبانے کی کوشش کریں'۔


یہ خبر 24 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں