کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ اے ڈی خواجہ کو عہدے سے ہٹائے جانے کے خلاف حکم امتناع برقرار رکھتے ہوئے انھیں کام جاری رکھنے کا حکم دے دیا۔

سندھ ہائی کورٹ میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو عہدے سے ہٹانے سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔

سماعت کے دوران ایڈوکیٹ جنرل نے تحریری جواب اور آئی جیز کی تقرری کا 15 سالہ ریکارڈ پیش کردیا، تحریری جواب میں بتایا گیا کہ 2002 سے 2017 تک 13 آئی جی سندھ تعینات کیے گئے۔

تحریری جواب کے مطابق آئی جی کی تقرری کا اختیار صوبائی حکومت کے پاس ہے، سندھ حکومت کی جانب سے آئی جی کی تقرری کے لیے 3 نام بھیجے جاتے ہیں، اگر بھیجے گئے 3 ناموں پر اتفاق نہ ہو تو وفاق سے مشاورت ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کا نوٹیفکیشن معطل

سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوئے، جس پر عدالت نے آئی جی سندھ کو عہدے سے ہٹانے کا حکم امتناع برقرار رکھتے ہوئے انھیں کام جاری رکھنے کا حکم دے دیا۔

بعدازاں کیس کی سماعت 19 اپریل تک ملتوی کردی گئی۔

یاد رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں سندھ حکومت نے آئی جی سندھ اللہ ڈنو خواجہ کی خدمات وفاق کے حوالے کرنے کے لیے اسلام آباد کو خط لکھا تھا، جس میں عہدے کے لیے سردار عبدالمجید دستی، خادم حسین بھٹی اور غلام قادر تھیبو کے ناموں کی تجویز دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: آئی جی سندھ کی خدمات وفاق کے حوالے کرنے کا فیصلہ

اس خط کے بھیجے جانے کے اگلے ہی روز حکومت سندھ نے اے ڈی خواجہ کی خدمات وفاق کے حوالے کرتے ہوئے 21 گریڈ کے آفیسر سردار عبدالمجید کو قائم مقام انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ مقرر کردیا تھا۔

بعدازاں پاکستان ادارہ برائے مزدور، تعلیم و تحقیق (پی آئی ایل ای آر) کے سربراہ کرامت علی نے حکومت سندھ کی جانب سے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، جس پر سماعت کرتے ہوئے عدالت عالیہ نے آئی جی سندھ کی معطلی سے متعلق سندھ حکومت کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا۔

اے ڈی خواجہ کا سندھ حکومت سے جھگڑا

خیال رہے کہ اے ڈی خواجہ کو سندھ حکومت کی جانب سے غلام حیدر جمالی کی برطرفی کے بعد گذشتہ برس مارچ میں آئی جی سندھ کے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔

تاہم مخصوص مطالبات کو ماننے سے انکار کے باعث اے ڈی خواجہ سندھ کی حکمراں جماعت کی حمایت کھوتے گئے۔

محکمہ پولیس میں نئی بھرتیوں کا اعلان کیا گیا تو اے ڈی خواجہ نے میرٹ کو یقینی بنانے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی تھی جس میں فوج کی کور فائیو اور سٹیزنز پولیس لائزن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے نمائندے بھی شامل تھے۔

اے ڈی خواجہ کے اس اقدام نے سندھ جماعت کے اُن ارکان کو ناراض کردیا جو ان بھرتیوں میں اپنا حصہ چاہتے تھے تاکہ آئندہ عام انتخابات سے قبل ووٹرز کو خوش کرسکیں۔

جس کے بعد گذشتہ سال دسمبر میں صوبائی حکومت نے اے ڈی خواجہ کو جبری رخصت پر بھیج دیا تھا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت اے ڈی خواجہ کو ہٹانا چاہتی ہے، لیکن وفاقی حکومت اس کے خلاف ہے۔

تاہم وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا اس معاملے پر کہنا تھا کہ آئی جی سندھ 15 دن کی چھٹی پر گئے تھے اور انھوں نے خود اس کی درخواست دی تھی۔

بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناع جاری کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو اے ڈی خواجہ کو رخصت پر بھیجنے سے روک دیا تھا، جس کے بعد رواں سال جنوری میں اے ڈی خواجہ نے اپنی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھال لی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں