اسلام آباد: حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی نے وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ مانگنے والے اپوزیشن رہنماؤں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کوئی طاقت وزیراعظم سے استعفیٰ نہیں لے سکتی۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حنیف عباسی نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے انہیں عدالتی فیصلہ پڑھنے کا مشورہ دے دیا۔

انہوں نے عمران خان کو پاکستان کی ترقی اور امن کا دشمن بھی قرار دیا اور کہا کہ 'عمران خان اناڑی ڈرائیور ہیں جن کے ہاتھ میں ملک کا اقتدار نہیں دیا جاسکتا'۔

یہ بھی پڑھیں: ’نواز شریف کی استعفیٰ دینے میں ہی عزت ہے‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے حنیف عباسی نے مولا بخش چانڈیو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'مولا بخش چانڈیو نے ن لیگ والوں کا ایان علی سے رشتہ پوچھا تھا، میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ نہ ہمارا اور نہ ہی ن لیگ کی قیادت کا کوئی رشتہ ہے'۔

انہوں نے کہا کہ ایان علی کا ان سے رشتہ ہے جنہوں نے لطیف کھوسہ کو ان کا وکیل مقرر کرکے دیا، جس نے دبئی میں فلیٹ لے کر دیا۔

حنیف عباسی نے مولا بخش چانڈیو کو چیلنج دیا کہ وہ ٹی وی پر آکر اگر یہ کہہ دیں کہ 'ایان علی سابق صدر آصف علی زرداری کی بہن ہیں تو میں ساری پیپلز پارٹی کے صدقے چلا جاؤں گا'۔

حنیف عباسی نے اعتراف کیا کہ آصف زرداری کے معاملے پر حکومت نے کمزوری کا مظاہرہ کیا اور انہیں پکڑا جانا چاہیے تھا جبکہ 60 ملین ڈالر سوئس بینکوں سے پاکستان لانے چاہیے تھے۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم کے استعفے کیلئے پی پی پی تحریک چلائے گی

انہوں نے کہا کہ آصف زرداری عمران خان کے ساتھ مل کر یہ خواب دیکھنا چھوڑ دیں کہ نواز شریف استعفیٰ دیں گے، انہوں نے 2014 کے دھرنے میں استعفیٰ نہیں دیا، 12 اکتوبر 1999 کو استعفیٰ نہیں دیا تو اب استعفیٰ کس بات پر دیں۔

عمران خان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے حنیف عباسی نے کہا کہ عمران خان ایک بین الاقوامی سازش کے تحت پاکستان کی ترقی کے خلاف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی سے مطالبہ کیا کہ ایک ایسی قانون سازی کی جائے جس سے ملک سے پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کا گند صاف ہوجائے لہٰذا آئندہ الیکشن لڑنے کے لیے ڈوپ ٹیسٹ لازمی قرار دینے کا قانون بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ قانون بن گیا تو ان سیاستدانوں کا خاتمہ ہوجائے گا جنہوں نے پورے پارلیمنٹ کو بدنام کررکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما فیصلہ، فلم ابھی باقی ہے!

خیال رہے کہ پاناما کیس میں 20 اپریل کو سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کیے جانے والے فیصلے کے بعد سے ملک میں سیاسی انتشار مزید بڑھ گیا ہے۔

مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی دونوں ہی اس فیصلے کو اپنی کامیابی قرار دے رہی ہیں جبکہ پیپلز پارٹی نے مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کے قیام اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو ہی مسترد کردیا ہے۔

فیصلے کے بعد پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ سمیت اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم سے اخلاقی بنیادوں پر مستعفی ہونے کا مطالبہ شروع کردیا ہے اور دباؤ بڑھانے کے لیے جلسے اور ریلیاں نکال رہے ہیں۔

دوسری جانب حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے وزراء اور سیاستدان بھی وزیراعظم کے دفاع میں سرگرم ہوگئے ہیں اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان لفظی جنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

اس لفظی جنگ میں بعض سیاستدان حد سے گزرنے سے بھی دریغ نہیں کررہے اور ایک دوسرے پر گھناؤنے الزام عائد کررہے ہیں جبکہ گندے الفاظ بھی استعمال کیے جارہے ہیں۔


تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Apr 23, 2017 11:11pm
السلام علیکم: اسی لیے تو کہتے تھے کہ کارروائی، ایک کے خلاف کارروائی ہوگی تو سب کے نام سامنے آئینگے، یہ لوگ بیچ بازار اپنے گندے کپڑے دھوئینگے، کتنا اچھا لگ رہا ہے کہ ن لیگیوں کو زرداری کے60 ملین ڈالر یاد آگئے، جہانگیر ترین ہو یا عمران خان اور زرداری کا کوئی بھی ساتھی، یا پانامہ میں نام آنے والے دیگر افراد ( فی الحال ملزمان بھی نہیں)، اگر کسی غیر قانونی عمل میں ملوث ہے تو صرف نام نہ لیں، حکومت کارروائی کرے، حکومت کا کام کارروائی کرنا ہوتا ہے نام لینا نہیں، اور پھر ہمارے ٹیکسوں کی رقم اور ہمارے نام پر ملکی اور غیر ملکی بینکوں سے لیے گئے قرضوں میں غبن کیے گئے کمیشن کو ملک کے خزانے میں جمع کیا جائے۔ ان کے نام بھی سامنے لائے جائیں۔۔۔۔۔۔ خیرخواہ