واشنگٹن: مبصرین کا خیال ہے ٍکہ واشنگٹن کی جانب سے افغانستان میں بیجنگ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو مثبت انداز میں دیکھے جانے کے بعد چین اور امریکا کے تعلقات میں ہونے والی حالیہ بہتری پاکستان کے لیے 'سازگار ماحول' پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری واضح کرچکے ہیں کہ 'جہاں پاکستان کے چین کے ساتھ قریبی اور قابل اعتماد تعلقات ہیں، وہیں پاکستان امریکا کے ساتھ بھی مضبوط مفادات پر مبنی روابط کا خواہاں ہے، پاکستان امریکا اور چین کے درمیان پُل کا کردار ادا کرچکا ہے اور وسیع تر مفاد میں ایسا جاری رکھے گا'۔

اس حوالے سے سینئر امریکی و پاکستانی حکام کے درمیان گذشتہ ہفتے واشنگٹن میں ہونے والی ملاقات بھی خاصی اہمیت کی حامل قرار دی جارہی ہے، مبصرین کے مطابق اس ملاقات میں 'مشکل اور کم مشکل' موضوعات پر بات چیت کی گئی۔

اس ملاقات میں پاکستانی ٹیم کی سربراہی وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کی جبکہ امریکی ٹیم، قومی سلامتی کے مشیر جنرل ایچ آر میک ماسٹر کی سربراہی میں شریک ہوئی۔

جمعرات (27 اپریل) کو ہارورڈ کینیڈی اسکول میں پاک-امریکا تعلقات کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی سفیر اعزاز احمد چوہدری کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک تعلقات کو مضبوط کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حالیہ اعلیٰ سطح کا رابطہ دونوں جانب سے خوشگوار رہا اور دونوں ممالک وسیع اور بہتر تعلقات کی خواہش رکھتے ہیں'۔

خیال رہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں کشیدگی کا آغاز مئی 2011 میں اُس وقت ہوا، جب امریکا نے ایبٹ آباد کے کمپاؤنڈ میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو تلاش کیا، کمانڈو آپریشن کا آغاز کیا اور اسلام آباد کو مطلع کیے بغیر اسامہ بن لادن کا خاتمہ کردیا تھا۔

اس واقعے کے بعد سے امریکا باقاعدگی سے پاکستان پر دہشت گردوں کو قبائلی علاقوں کے استعمال کی اجازت دینے کا الزام عائد کرتا رہا ہے جس کے ذریعے افغانستان میں حملے کیے جاتے ہیں جبکہ پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے۔

اعزاز چوہدری نے ڈان سے گفتگو میں بتایا، 'افغانستان میں استحکام، داعش کی موجودگی کا خاتمہ اور تعلیم سے لے کر صحت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون پاکستان اور امریکا کا مشترکہ مفاد رہا ہے'۔

پاکستان اپنے تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار اُس وقت بھی کرچکا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ جنوبی ایشیائی خطے کے لیے اپنی پالیسی پر جائزہ لے رہی تھی تاہم امریکی ذرائع کہتے ہیں کہ جائزے کے اس عمل کی تمام توجہ افغانستان پر مرکوز ہوتی ہے، پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر حصوں پر نہیں۔

اس امریکی ٹیم کا نئی افغان پالیسی پر کام مئی کے درمیان تک مکمل ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔

سفارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ 1989 میں روس کے انخلاء کے بعد امریکا واپس افغانستان میں روسی مداخلت نہیں چاہتا اور یہی وجہ ہے کہ امریکا، پاکستان اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات پر تشویش کا شکار ہے لیکن اس معاملے میں چینی مداخلت پر امریکا کو اعتراض نہیں بالخصوص 7-6 اپریل کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد سے امریکا اس حوالے سے مطمئن ہے۔

امریکا اور چین کے درمیان بہتر ہوتے تعلقات، بیجنگ کی جانب سے افغانستان میں امن اور استحکام کے قیام کے لیے کردار ادا کرنے میں مددگار ہیں اور اسی بات کو پاکستان بھی اپنے لیے اچھے موقع کے طور پر دیکھتا ہے۔

ڈان سے گفتگو میں اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان، چین اور امریکا دونوں ممالک سے مضبوط تعلقات کا خواہاں ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم نے 70 کی دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان پُل کا کردار ادا کیا اور ہمارا ماننا ہے کہ ہم اب بھی ایک پُل ہی ہیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں