پاک فوج کا کہنا ہے کہ چمن سرحد پر پیش آنے والے واقعے سے قبل افغان حکام کو بتایا تھا کہ علاقے میں مردم شماری مہم جاری ہے تاہم انھوں نے اس میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران چمن سرحد پر ہونے والے واقعے کے حوالے سے کہا کہ اس سرحد پر دو گاؤں منقسم گاؤں ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا آدہ حصہ افغانستان میں ہے اور آدھا حصہ پاکستان میں ہے تو ہم نے مردم شماری کے آغاز میں افغان حکام کو آگاہ کردیا تھا کہ ہم پاکستانی حصے میں مردم شماری کرنے جارہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ہماری جانب سے آگاہ کیے جانے کے باوجود افغان فورسز نے مردم شماری کے کام میں رکاوٹ ڈالی جس کی وجہ سے مردم شماری ملتوی بھی کرنا پڑی۔

مزید پڑھیں: پاک فوج نے ڈان خبر کی تحقیقات سے متعلق ٹوئیٹ واپس لے لی

ان کا کہنا تھا کہ جس دن واقعہ پیش آیا اس روز مردم شماری کی ٹیم کی حفاظت پر تعینات ایف سی اہلکار افغان پولیس سے بات چیت کے لیے جارہے تھے اور افغان حکام کو آگاہ کرنا چاہتے تھے کہ ہم اپنے حصے میں مردم شماری کا عمل مکمل کرنے جارہے ہیں تو اسی دوران ایف سی اہلکاروں پر فائرنگ کردی گئی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ افغانستان ہمارا برادر ملک ہے اور ان دونوں ممالک کی افواج کے درمیان کسی بھی قسم کی جھڑپ نہیں ہونی چاہیے تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب افغان فورسز نے ہمارے علاقوں میں مورچے بنائے تو پھر ہمیں اپنے دفاع میں انھیں جواب دینا پڑا۔

کمانڈر سدرن کمانڈ کے الفاظ کو دہراتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ہماری خواہش نہیں تھی کہ افغان فوج کا نقصان ہو، وہ ہمارے بھائی ہیں ہم ان کا نقصان نہیں کرنا چاہتے۔

یہ بھی پڑھیں: 'پاکستان اور افغانستان سرحدی مسائل کو جلد حل کرلیں گے'

یاد رہے کہ رواں ماہ 5 مئی کو بلوچستان کے علاقے چمن میں مردم شماری ٹیم کو تحفظ فراہم کرنے والے سیکیورٹی اہلکاروں پر افغان بارڈر فورسز نے فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں 2 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 12 افراد جاں بحق اور 40 زخمی ہوگئے تھے۔

دوسری جانب گذشتہ روز آئی جی ایف سی بلوچستان میجر جنرل ندیم انجم نے دعویٰ کیا تھا کہ پاک-افغان بارڈر پر افغان فورسز کی جانب سے کی جانے والی جارحیت کا بھرپور جواب دیا گیا جس میں 50 افغان فوجی ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوگئے۔  

بعد ازاں پاکستان میں تعینات افغان سفیر عمر زاخیل وال نے گذشتہ ہفتے چمن میں پاک-افغان فورسز کے درمیان ہونے والے فائرنگ کے تبادلے میں افغانستان کے 50 فوجیوں کی ہلاکت کے دعوے کی ترید کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعے میں صرف 2 افغان فوجی ہلاک ہوئے۔

نورین لغاری

لاہور میں ایک آپریشن کے دوران برآمد کی جانے والی 19 سالہ نورین لغاری کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ نورین لغاری دہشت گرد بننے جارہی تھی، وہ پہلے سے ایک دہشت گرد نہیں تھی، دہشت گردوں نے اس کے کم عمر ذہن کو ورغلا کر اس کی ذہن سازی کرنے کی کوشش کی، جو اچھی نہیں تھی تاہم پاک فوج نے اسے وقت پر بچالیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ اگر وہ میری بیٹی ہو یا آپ کی بیٹی ہو اور اگر ہم اس کو دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچا لیں، تو کیا ہم اس کو ایک دہشت گرد کی طرح سزا دیں یا پھر اسے موقع فراہم کیا جائے کہ وہ باہر دنیا میں جاکر دیگر نوجوانوں کو بتا سکے کہ اسے کیسے پھنسایا گیا، بہتر یہ ہے کہ ہم اس کو اپنے معاشرے میں بہتری کیلئے استعمال کریں، 'ہم نے نورین لغاری کو اچھا انسان بننے کا موقع دیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ جس وقت سوات میں شدت پسندی اپنے عروج پر تھی تو طالبان وہاں کے کم اور معصوم بچوں کو لے جاکر ان کی ذہن سازی کررہے تھے، تاہم ہم نے ان بچوں کی کردار سازی کی، لیکن اگر ہم انھیں جیل میں ڈال دیتے تو کیا وہ پاکستان کے حق میں کام کرتے یا اس ملک کے خلاف ہوجاتے؟

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ہم نے بحالی سینٹرز میں ان بچوں کی مثبت ذہن سازی کی اور اب تین، چار سال کا عرصہ گزرنے کے بعد یہ بچے ملک کے اچھے شہری ہیں، والدین کی خدمت کررہے ہیں اور ملک میں تعمیری کردار ادا کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'نورین لغاری کو سوشل میڈیا پر شدت پسند بنایا گیا'

واضح رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جمعہ (14 اپریل) کی شب لاہور کے فیکٹری ایریا میں چھاپہ مار کارروائی کے دوران ایک مشتبہ دہشت گرد کو ہلاک اور اس کی اہلیہ اور ایک ساتھی کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

پاک فوج کے شبعہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ہلاک ہونے والا دہشت گرد اور اس کے ساتھی شہر میں مسیحی برادری کے مذہبی تہوار 'ایسٹر' کے دوران حملوں کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق نورین لغاری سوشل میڈیا کے ذریعے عسکریت پسندوں سے رابطے میں تھی۔

فروری میں اپنا گھر چھوڑنے کے بعد لاہور کے بیدیاں روڈ کے رہائشی علی طارق سے شادی کرنے والی نورین کا کالج کارڈ اور اس کے والد کا شناختی کارڈ سیکیورٹی اہلکاروں کو ان افراد کے ٹھکانے سے ملا جس کے بعد انہوں نے حیدرآباد میں نورین لغاری کے اہل خانہ سے رابطہ کیا۔

احسان اللہ احسان

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کالعدم جماعت الحرار کے موجودہ رہنما اور پاکستان تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے حوالے سے کہا کہ کالعدم تنظیم کے ترجمان کے اعترافی بیان کو میڈیا پر چلانے کا مقصد حقائق کو دنیا کے سامنے لانا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مولانا فضل اللہ کا اہم ساتھی نوشہرہ سے گرفتار

انھوں نے کہا کہ اس کے بیان کو پیش کرنے کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ یہ لوگ کس طرح ہمارے خلاف استعمال ہوتے رہے، ان کی سرگرمیاں کیا تھیں اور ان کے پیچھے کون سی قوتیں تھیں۔

انھوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ احسان اللہ احسان کو ہیرو بنا کر پیش کیا جارہا ہے، ملک کا جو بھی قانون ہے وہ اس پر لاگو ہوگا اور اس حوالے سے جو بھی فیصلہ سامنے آئے گا اس پر عمل کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ 17 اپریل 2017 کو پاک فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے خود کو سیکیورٹی فورسز کے حوالے کردیا۔

مزید پڑھیں: احسان اللہ احسان کےخلاف پشاور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے پریس بریفنگ کے دوران بتایا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان اور جماعت الاحرار کے موجودہ لیڈر احسان اللہ احسان نے خود کو سیکیورٹی فورسز کے حوالے کردیا ہے جو کہ گزشتہ 15 سالوں کی قربانی کے بعد بڑی کامیابی ہے۔

پاک ایران تعلقات

ایرانی فوج کے جنرل کے پاکستان مخالف حالیہ بیان پر پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ دو ہمسایہ ممالک کے تعلقات اچھے ہونے چاہیے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان ایک خود مختار اور اچھی فوج رکھنے والا ملک ہے، 'پاک فوج ریاست کا مضبوط ادارہ ہے'۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پاک ایران سرحد پر حالات بہت زیادہ خراب نہیں ہیں جیسا کہ بیان کیا جارہا ہے۔

یاد رہے کہ 8 مئی 2017 کو ایرانی فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل محمد حسین باقری نے کہا تھا کہ جہاں بھی دہشت گرد موجود ہوں گے ایرانی فوجی وہاں حملہ کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ایرانی فوج کےسربراہ کا بیان برادرانہ تعلقات کی روح کے خلاف: پاکستان

جنرل حسین باقری کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنا چاہیئے تاہم اگر حملے جاری رہے تو دہشت گردوں کی ان پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا جائے گا اور انہیں تباہ کردیا جائے گا چاہے وہ کہیں بھی ہوں۔

اس بیان سے بظاہر ان کا اشارہ پاکستان کی جانب تھا کیوں کہ 26 اپریل کو پاکستان کے ساتھ متصل ایرانی صوبے سیستان میں حملے کے نتیجے میں 10 ایرانی گارڈز ہلاک ہوگئے تھے۔

واضح رہے کہ ایرانی عسکریت پسند گروپ جیش العدل نے مذکورہ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جو اس سے قبل 2015 میں 8 گارڈز اور اس سے دو سال قبل 14 گارڈز کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کرچکی ہے۔

بھارتی فوجیوں کی لاشوں کی بے حرمتی

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھارت کے اس دعوے کے حوالے سے کہ پاک فوج نے ایل او سی پر سرحد پار کی اور بھارتی فوجیوں کو قتل کرکے ان کی لاشوں کی بے حرمتی بھی کی پر کہا کہ پاک فوج ایک پروفیشنل فوج ہے، ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

انھوں نے کہا کہ اس سے قبل بہت مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ایل او سی پر متعدد بھارتی فوجی غلطی سے پاکستانی علاقے میں داخل ہوئے تاہم پاک فوج نے ان کو طریقے اور تعاون کے بعد عزت سے واپس بھیجا۔

انھوں نے کہا کہ ماضی میں ایک بھی ایسا واقع پیش نہیں آیا ہے کہ پاک فوج نے کسی بھی ملک کے فوجی کی لاش کی بے حرمتی کی ہو چاہے وہ بھارتی فوجی ہی کیوں نہ ہو اور اس معاملے میں بھی بھارت کو وضاحت دی جاچکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کے بعد بھارت نے پاکستان کے مریضوں کو ویزہ دینے سے انکار کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: ’لاشوں کی بے توقیری کا الزام کشمیر سے توجہ ہٹانے کوشش‘

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہاں سے مریض بھارت اس لیے جاتے تھے کہ وہاں ٹرانسپلانٹ کی سہولیات سستی اور بہتر ہیں تاہم جو مریض بھارتی حکام کے مذکورہ فیصلے کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں ہم کوشش کررہے ہیں کہ انھیں وزارت خارجہ کے ذریعے مدد فراہم کریں اور اگر پاکستان کے علاوہ ان کا علاج کسی اور ملک میں کروانا ہے تو اس کیلئے بھی سہولت فراہم کی جائی گی۔

خیال رہے کہ بھارتی فوج نے 2 مئی 2017 کو دعویٰ کیا تھا کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے ایل او سی کے قریب ہندوستانی پوسٹوں پر راکٹ اور مارٹر فائر کیے تھے۔

غیر ملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق بھارتی فوج نے ایک جاری بیان میں کہا تھا کہ 'پاکستان آرمی نے غیر فوجی اقدام کرتے ہوئے گشت پر تعینات دو ہندوستانی فوجیوں کی لاشیں مسخ کردیں'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ایسی غیر مناسب کارروائی کا بھرپور جواب دیا جائے گا'۔

یاد رہے کہ بھارتی فوج کی جانب سے مذکورہ دعویٰ ہندوستانی آرمی کے ایڈیشنل ڈائریکٹریٹ جنرل آف پبلک انفارمیشن کے مصدقہ سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ میں کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں