اسلام آباد: صوبہ پنجاب کے ضلع سرگودھا میں مزار کے متولی کی جانب سے 20 افراد کو تشدد کے بعد قتل کرنے کے خلاف متاثرہ خاندانوں نے نیشنل پریس کلب (این پی سی) کے سامنے مظاہرہ کیا۔

اس موقع پر مظاہرین نے حکومت سے انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔

خیال رہے کہ مذکورہ واقعے میں مزار کے متولی نے اپنے مردین کو تشدد کے بعد قتل کردیا تھا، جو اس کے پاس مختلف جسمانی اور روحانی بیماریوں کے علاج کروانے آتے تھے۔

مزید پڑھیں: سانحہ سرگودھا: ’قتل کا واقعہ خالصتاً ذاتی دشمنی پر مبنی تھا‘

مظاہرین نے الزام لگایا کہ واقعے کا ملزم وحید، جسے اس کے 3 ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا، اس کے متعدد ساتھی تاحال گرفتار نہیں ہوئے ہیں۔

احتجاج میں شامل محمد اکرم نے ڈان کو بتایا کہ مزار کے متولی کے ساتھی علاقہ مکینوں کیلئے بڑا خطرہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’متعدد سیاسی شخصیات اور پولیس افسران وحید کے مریدین ہیں جو اسے مقدمے میں فائدہ پہنچا رہے ہیں‘۔

انھوں نے مزید بتایا کہ ’واقعے میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ انصاف کیلئے بھاگ دوڑ کررہے ہیں اور اسی لیے ہم اسلام آباد آئے ہیں کیونکہ سرگودھا میں اعلیٰ حکام ہماری بات نہیں سن رہے‘۔

مظاہرین نے جیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔

یاد رہے کہ صوبہ پنجاب کے ضلع سرگودھا سے 17 کلومیٹر فاصلے پر چک 95 شمالی میں گذشتہ ماہ 2 اپریل کو رونما ہونے والے المناک واقعے میں درگاہ علی محمد قلندر کے متولی نے اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ لاٹھیوں اور چاقوؤں کے وار سے 20 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سرگودھا: 20 مریدین کے قاتل متولی نے اعترافی بیان واپس لے لیا

متولی کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کی عمریں 30 سے 40 سال کے درمیان تھیں جبکہ ان میں بزنس گریجویٹ، پولیس اہلکار اور سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) کا بیٹا بھی شامل تھا۔

واقعے کے مرکزی ملزم عبدالوحید کا پولیس کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں کہنا تھا کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا، 'اس نے اپنے مریدین کو گناہوں سے پاک کرکے جنت بھیجا ہے'۔

گرفتاری پر عبدالوحید بضد تھا کہ اس کے مریدوں نے گناہوں سے پاک کرنے کی درخواست کرتے ہوئے انہیں نئی زندگی دینے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ ایک موقع پر وحید کا کہنا تھا کہ اس نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ اسے شک تھا کہ مرید اسے مارنے آئے ہیں۔


یہ رپورٹ 28 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں