سرگودھا کے نواحی گاؤں چک 95 کی درگاہ میں 20 مریدوں کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم عبدالوحید نے اپنا اعترافی بیان واپس لے لیا۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق واقعے کے مرکزی ملزم عبدالوحید کا کہنا ہے کہ وہ بے گناہ ہے جبکہ اس کے مریدین نے ایک دوسرے کو خود ہی قتل کیا۔

یاد رہے کہ صوبہ پنجاب کے ضلع سرگودھا سے 17 کلومیٹر فاصلے پر چک 95 شمالی میں گذشتہ ماہ 2 اپریل کو رونما ہونے والے المناک واقعے میں درگاہ علی محمد قلندر کے متولی نے اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ لاٹھیوں اور چاقوؤں کے وار سے 20 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے درگاہ پہنچ کر درگاہ کے متولی عبدالوحید کو اس کے 4 ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ سرگودھا: ’قتل کا واقعہ خالصتاً ذاتی دشمنی پر مبنی تھا‘

متولی کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کی عمریں 30 سے 40 سال کے درمیان تھیں جبکہ ان میں بزنس گریجویٹ، پولیس اہلکار اور سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) کا بیٹا بھی شامل تھا۔

واقعے کے مرکزی ملزم عبدالوحید کا پولیس کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں کہنا تھا کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا، 'اس نے اپنے مریدین کو گناہوں سے پاک کرکے جنت بھیجا ہے'۔

گرفتاری پر عبدالوحید بضد تھا کہ اس کے مریدوں نے گناہوں سے پاک کرنے کی درخواست کرتے ہوئے انہیں نئی زندگی دینے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ ایک موقع پر وحید کا کہنا تھا کہ اس نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ اسے شک تھا کہ مرید اسے مارنے آئے ہیں۔

مزید پڑھیں: سانحہ سرگودھا: مریدین کے عقائد اور قاتل کے مقاصد کیا تھے؟

دوسری جانب اس کیس کے ایک فریق توقیر نے پیر (8 مئی) کے روز ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ جج سے اپیل کی کہ اسے تحفظ فراہم کیا جائے کیونکہ اسے خوف ہے کہ متولی وحید کے ساتھی اس پر حملہ کرکے اسے قتل کرسکتے ہیں۔

خیال رہے کہ توقیر علاقہ پولیس کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ (ڈی ایس پی) شبیر کا داماد ہے۔

توقیر اُن چار زخمیوں میں سے ایک ہے جو متولی کے تشدد کے بعد زندہ بچ جانے میں کامیاب رہے تھے۔

واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد کے رشتے دار الزام عائد کرتے ہیں کہ ڈی ایس پی اور توقیر ملزم کی مدد کے لیے پولیس پر دباؤ ڈال رہے ہیں جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ملزم کا ڈی این اے ٹیسٹ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں اور اس حوالے سے کیس چالان 15 مئی تک انسداد دہشت گردی عدالت میں جمع کرادیا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں