اسلام آباد: وزن میں کمی کے آپریشن (لائپوسکشن) کے لیے وفاقی دارالحکومت کے سیکٹر جی-8 میں واقع کلینک کا رخ کرنے والے نذر عباس جعلی ڈاکٹر کے ہتھے چڑھ کر ہلاک ہوگئے۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے شہری 42 سالہ نذر عباس نے وزن میں کمی کے لیے سیکٹر جی-8 میں واقع ایک کلینک کا رخ کیا جہاں انہیں جسم سے اضافی چربی کم کرنے کے لیے لائپوسکشن کا مشورہ دیا گیا۔

تاہم جعلی ڈاکٹر کی زیر نگرانی لائپوسکشن کے عمل سے گزرنے کے بعد وہ جانبر نہ ہوسکے۔

جس کے بعد پولیس نے شہر کے مرکز میں واقع اس کلینک کو چلانے والے مشتبہ ڈاکٹر کو حراست میں لے لیا۔

واضح رہے کہ وزن کی کمی کے لیے کیے جانے والے اس آپریشن میں جلد میں کٹ لگا کر چھوٹی، چھوٹی باریک نلکیاں (کینولا)جسم میں داخل کی جاتی ہیں جن کے ذریعے جسم میں جمع چربی کو باہر نکالا جاتا ہے، لائپوسکشن کے عمل کے دوران ڈاکٹر نلکیوں کو حرکت دیتے رہتے ہیں تاکہ جسم کے ان حصوں سے چربی نکالی جاسکے جہاں اس کی مقدار زیادہ ہے۔

ویڈیو دیکھیں: ینگ ڈاکٹرز کی مبینہ غفلت سے مریض جان سے گیا

نذر عباس جو قومی دیہی سپورٹ پروگرام کا بھی حصہ رہ چکے ہیں، کا آپریشن 6 اپریل کو کیا گیا اور اسی شام انہیں ہسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا۔

تاہم نذر عباس کو 'بےآرامی' کی شکایت پر اگلے روز دوبارہ کلینک لایا گیا۔

جس پر 'ڈاکٹر' نے انہیں مشورہ دیا کہ اس بےآرامی کی وجہ دل کا مسئلہ ہوسکتا ہے، لہذا انہیں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) لے جایا جائے۔

تاہم پمز میں چند گھنٹوں کی طبی جانچ کے بعد ڈاکٹرز نے انہیں یہ کہہ کر ڈسچارج کردیا کہ انہیں دل کا کوئی عارضہ نہیں۔

نذر عباس کے بھائی خضر عباس نے ڈان کو بتایا کہ '9 اپریل تک میرے بھائی کی حالت بہت خراب ہوچکی تھی، چونکہ ہماری رہائش سیکٹر آئی-9 میں ہے لہذا ہم اسے ہولی فیملی ہسپتال لے کر گئے جہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کے جسم میں انفیکشن پھیل چکا ہے'۔

خضر عباس کا کہنا تھا کہ شام تک ہولی فیملی ہسپتال میں ان کے بھائی کی سرجری کی گئی اور اہلخانہ کو بتایا گیا کہ مریض کی آنتوں میں کم از کم 5 پنکچرز ہیں جس سے آنتوں میں جانے والا مائع پیٹ میں جمع ہوتا جارہا ہے اور انفیکشن کا باعث بن رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: معذوری کی وجہ: ڈاکٹروں کی غفلت

اسی انفیکشن کی وجہ سے 10 اپریل کے روز نذر عباس کا انتقال ہوگیا۔

خضر عباس نے الزام عائد کیا کہ 'میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میرے بھائی پرائیوٹ کلینک میں کرائے گئے لائپوسکشن کی وجہ سے ہلاک ہوئے، میں نے آپریشن کرنے والے ڈاکٹر کے بارے میں پوچھ گچھ شروع کی جس سے مجھے علم ہوا کہ وہ کسی ہسپتال میں وارڈ بوائے تھا جس نے بعد ازاں ڈاکٹر بن کر علاج کرنا شروع کردیا'۔

ہلاک ہونے والے شہری کے بھائی کا مزید کہنا تھا کہ 'میں نے 'ڈاکٹر' کا رجسٹریشن نمبر پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل سے چیک کروایا اور میں یہ جان کر حیران رہ گیا کہ وہ رجسٹریشن نمبر سرگودھا کے کسی ماہر چشم کا تھا'۔

خضر عباس نے بتایا کہ بعد ازاں میں نے کراچی کمپنی پولیس کے پاس اپنی شکایت درج کروائی کہ میرے بھائی کو قتل کیا گیا ہے، جس کے بعد پولیس نے اس کیس کو رمنا پولیس کو ٹرانسفر کردیا۔

انہوں نے کہا کہ ملزم کو پولیس گرفتار کرچکی ہے اور اب وہ جوڈیشل ریمانڈ پر ہے، ان کا کہنا تھا، 'میں اپنے بھائی کو تو واپس نہیں لا سکتا لیکن دوسرے لوگوں کی جان بچانا چاہتا ہوں'۔

انہوں نے شہریوں سے اپیل کی ڈاکٹر کی اہلیت کے تصدیق کیے بغیر کسی کلینک کا رخ نہ کریں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لوگ اسمارٹ نظر آنے کے لیے ورزش کے بجائے سرجری کو ترجیح دیتے ہیں مگر آخر میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کبھی کبھی تو زندگی سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جاتے ہیں۔


یہ خبر 7 جون 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں