معذوری کی وجہ: ڈاکٹروں کی غفلت

08 جنوری 2015
ہمارا صحت کا نظام مجرمانہ حد تک نامناسب ہے جو سنگین بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے لیے ایک بارودی سرنگ کے جیسا ہے — اے پی پی/فائل
ہمارا صحت کا نظام مجرمانہ حد تک نامناسب ہے جو سنگین بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے لیے ایک بارودی سرنگ کے جیسا ہے — اے پی پی/فائل

اس میں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستان میں ڈاکٹر اور میڈیکل ٹیمیں بسا اوقات مریضوں کے علاج کے دوران مجرمانہ غفلت برتتی ہیں، اور ایسا خاص طور پر زندگی بچانے والے آپریشنز میں ہوتا ہے۔

میڈیکل آڈٹ کے قوانین موجود ہیں، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجود نہیں ہیں۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل مریضوں کی بھلائی اور ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے بجائے میڈیکل پروفیشنلز کو تحفظ فراہم کرنے میں مصروف ہے جس کی وجہ سے غفلت اور غلطیاں عام ہیں، اور ڈاکٹر اپنے مریضوں کے ساتھ کچھ بھی کرنے، یہاں تک کہ ان کی جانوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے بھی آزاد ہیں۔

اس کے علاوہ ایسے کوئی بھی قوانین موجود نہیں ہیں جس کے تحت ڈاکٹرز بیماری کی تشخیص اور مستقبل میں اس کی ممکنہ صورتحال کے حوالے سے مریض یا اس کے گھرانے کو آگاہ کرنے کے پابند ہوں، یہاں تک کہ ملک کے چوٹی کے ہسپتالوں (یعنی بڑے کاروبار) میں بھی ایسا ہی ہے۔

میڈیکل پروفیشنل ہونے کے ناطے میں نے غفلت و غلطی کے ایک دو نہیں بلکہ کئی واقعات سنے ہیں۔

اس اہم و پریشان کن مسئلے پر روشنی ڈالنے کے لیے میں اس صدمہ انگیز واقعے کا ذکر کروں گا، جو میرے کزن نجیب کے ساتھ پیش آیا۔

میرا کزن جو سعودی عرب میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا ہے، congenital Factor XIII deficiency کا شکار ہے۔ وہ سعودی عرب میں دو بار اپنے دماغ سے ہیما ٹوما (خون بھری سوجن) نکلوانے کے لیے سرجری کروا چکا ہے۔

دونوں ہی دفعہ ڈاکٹرز کو فون پر ابتدائی تشخیص سے آگاہ کیا گیا تھا، اور تقریباً ایمرجنسی میں ہسپتال لایا گیا تھا۔ الظھران نامی شہر کے مقامی ہسپتال میں صرف 4 سے 5 گھنٹے کے نوٹس پر ہی ڈاکٹرز دونوں بار خون نکال دینے میں کامیاب رہے۔ نجیب کی صحت دونوں ہی مواقع پر بحال ہوگئی تھی۔

بدقسمتی سے ان کے والد کی ریٹائرمنٹ کے بعد میرے کزن کا گھرانہ پاکستان منتقل ہوگیا، اور یہاں زیادہ تر ڈاکٹر Factor XIII deficiency سے ناواقف ہیں، اور مریضوں کا علاج اسی طرح سے کرتے ہیں جس طرح وہ Factor V اور Factor VIII کے شکار دیگر ہیمو فیلیک مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ یہ امراض پاکستان کے میڈیکل اور نرسنگ اسکولز میں عام پڑھائے جاتے ہیں۔

ایک دن میرے کزن نے دماغی شاک کی علامات ظاہر کرنی شروع کیں۔ اسے فوری طور پر راولپنڈی میں ایک پرائیوٹ کلینک لے جایا گیا جہاں ڈاکٹر نے ابتدائی طبی امداد دے کر مریض کو ہسپتال ریفر کردیا۔

ہسپتال پہنچنے پر نجیب کو ظاہری علامات کے تحت سکون پہنچانے کے لیے سکون آور ادویات دے دی گئیں۔ اسے رات کو مزید کچھ گھنٹوں کے لیے ہسپتال میں رکھا گیا لیکن ہسپتال کے اسٹاف نے اسپائنل شاک کے پیچیدہ کیس کا علاج کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا کیونکہ ان کے مطابق ان کے پاس اس کے لیے مطلوبہ مہارت موجود نہیں تھی۔

میرے 26 سالہ کزن کو پھر ایک اور نئے تعمیر شدہ ہسپتال لے جایا گیا۔ اس ادارے میں اسے 24 گھنٹے سے زائد کے لیے رکھا گیا۔ کنسلٹنٹ نیوروسرجن اپنا روٹین کام مکمل کرنے، یعنی اٹھارہ گھنٹے بعد تشریف لائے، اور اس وقت تک ہم نجیب کو تیسرے ہسپتال منتقل کرنے کی تیاری میں تھے۔

مریض کے والدین ہسپتال انتظامیہ کی منتیں کرتے رہے کہ کیس کو ہلکا لینے کے بجائے سنجیدگی سے لیا جائے، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

کیا آپ ایک ایسے ڈاکٹر سے بہتری کی توقع رکھ سکتے ہیں جو 12 گھنٹوں تک یہی کہتا رہے کہ میں 15 منٹ میں پہنچ رہا ہوں۔

تیسرے ہسپتال میں کنسلٹنٹ نیوروفزیشن ڈاکٹر K نے فوراً مریض کو آپریشن تھیٹر میں دھکیلا، اور اسپائنل کورڈ سے خون کی گٹھلی نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔

اس بدترین رویے نے 26 سالہ نجیب کو معذوری سے دوچار کردیا ہے جو پاکستان میں سیٹل ہونے اور بحریہ ٹاؤن میں مینیجمنٹ ٹرینی کے طور پر کام شروع کرنے والا تھا۔ والدین جو اب اپنے بچے کے مستقبل کے لیے بے پناہ پریشان ہیں، کسی معاوضے و جرمانے کے طلبگار نہیں ہیں۔ ہاں صرف اتنا چاہتے ہیں کہ کوئی اور نجیب اس طرح کی غفلت کا شکار نہ ہو۔

پہلے ہسپتال کے ڈاکٹروں کی غفلت کی وجہ سے مریض کے گھر والے اب تک فزیوتھراپی و دیگر مراحل پر 20 لاکھ روپے سے زائد خرچ کرچکے ہیں، لیکن ان کے بچے کی صحت کی بحالی کے کوئی آثار موجود نہیں ہیں۔

ڈاکٹروں کی غفلت کے سینکڑوں کیسز میں سے اس ایک کیس کو دہرانے کا مقصد پاکستان میں میڈیکل آڈٹ کی غیر موجودگی پر احتجاج کرنا ہے۔ مریض کی مکمل طبی معلومات سامنے موجود ہونا درست اور مناسب علاج کے لیے پہلی مطلوب چیز ہے۔ پاکستان میں ایسا نہ ہونے کے برابر ہے۔

مریض کے بارے میں مکمل و مصدقہ معلومات کی عدم دستیابی کی وجہ سے نہ صرف غلط علاج کیا جاتا ہے، بلکہ پرائیوٹ ہسپتالوں کے خود ساختہ میڈیکل بورڈز آسانی سے نان میڈیکل لوگوں کی شکایات کو مسترد کردیتے ہیں۔

غیرمعمولی و انوکھی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے لیے آرفِن ڈرگز (وہ دوائیں جو کبھی کبھی لاحق ہونے والے مرض میں استعمال ہوتی ہیں) کا حصول بھی ایک حل طلب مسئلہ ہے۔ سرکاری و نجی ہسپتالوں میں اس طرح کی دوائیں حاصل کرنے کا اداروں کی سطح پر کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ قانونی وجوہات کی بنا پر فارماسیوٹیکل کمپنیاں آرفِن ڈرگز پاکستان لانے سے ہچکچاتی ہیں۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ آرفِن ڈرگز کو یہ نام اس لیے دیا گیا ہے کہ ایک غریب ملک میں ان کی بہت زیادہ طلب نہیں، اور کمرشل طور پر تیار نہیں ہورہیں۔ پاکستان میں ان دواؤں تک رسائی قوتِ خرید سے جڑی ہوئی ہے جو آئینی اور اخلاقی طور پر غلط ہے۔

سرکاری اداروں جیسے نئے قائم شدہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو پاکستان میں ادویات، خاص طور پر آرفِن ڈرگز دستیاب کروانے، اور صحت تک کم قیمت میں رسائی تمام شہریوں کے لیے ممکن بنانے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔

میڈیسن تعلیم کی طرح ایسا شعبہ ہے جہاں نجی مفادات اور مریضوں کی جان کی قیمت پر دولت بنانے کی ہر طرح سے حوصل شکنی کرنی چاہیے۔

حکومت کو غیر معمولی و نایاب بیماریوں کے علاج کے لیے ایک ادارہ قائم کرنا چاہیے، جبکہ ڈاکٹروں کی غفلت کے خلاف سخت قانون سازی کرنی چاہیے۔ ہمارے ملک کی آبادی 18 کروڑ سے زائد ہے جس میں ہزاروں افراد ایسی بیماریوں میں مبتلا ہوں گے اور جن کے پاس علاج کی سہولیات بھی موجود نہیں، اور ہیں تو بہت ہی مہنگی۔

ہمارا صحت کا نظام مجرمانہ حد تک نامناسب ہے۔ نجیب اور اس کی طرح کے دیگر مریضوں کے لیے یہ ایک بارودی سرنگ کے جیسا ہے۔

حکام کو اس مسئلے پر معنی خیز اقدامات اٹھانے چاہیئں۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Anwar Zeb Jan 10, 2015 08:33am
ماجد صاحب زبردست لکھا ہے اگر اپ کی طرح میڈیا والوں نے دھرنوں اور شادیوں کے لئے اپنا ٹائم کم نکالنا شروع کیا تبہتری آسکتی ہے ۔کیونکہ اس ملک میں کھانسی کے مریض کو اگر اپ اسپتال میں لے جائے تو اس کا زندہ نکلنا مشکل ہے۔اور سب سے بڑی بات یہ ہے اسپتال میں مرنے والے مریضوں کی پوسمارٹم ضرور کرنی چاہئے تکہ پتہ لگے کہ مریض کو اوپر والے نے بلایا ہے یا نیچے والے نے بیجھا ہے۔