اسلام آباد: شریف خاندان پر منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے الزام عائد کیا ہے کہ متعدد حکومتی ادارے پاناما پیپرز کی تحقیقات کے لیے 'شواہد اکھٹا کرنے میں رکاوٹ پیدا کررہے ہیں'۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے پیش کی جانے والی رپورٹ میں جے آئی ٹی نے الزام لگایا کہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، قومی احتساب بیورو (نیب)، وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) ریکارڈز کی حوالگی میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں جبکہ یہ تمام ادارے متعلقہ دستاویزات میں جعلسازی اور چھیڑ چھاڑ کے بھی مرتکب ہیں۔

واضح رہے کہ یہ رپورٹ خفیہ طور پر سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی تھی تاہم بعد ازاں نامعلوم عناصر نے اسے میڈیا پر لیک کردیا۔

تمام 6 تفتیش کاروں کے دستخط کے ساتھ جمع کروائی گئی جے آئی ٹی کی درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ وہ اصلاحی ہدایات جاری کریں تاکہ حکومتی مشینری کا غلط استعمال روکا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: جے آئی ٹی پر اعتراض ٹیم کے خلاف مہم کا حصہ قرار

درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ گواہان، جے آئی ٹی ممبران اور ان کے اہل خانہ کی سلامتی اور ان کی نوکریوں کا تحفظ یقینی بنائے۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے مطابق، ایس ای سی پی کے گواہان سے تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ادارے کے چیئرمین ظفر الحق حجازی چوہدری شوگر ملز لمیٹڈ کے خلاف دائر منی لانڈرنگ کیس کو بند کرنے میں مبینہ طور پر ملوث تھے۔

رپورٹ میں دعوٰی کیا گیا کہ اس شوگر مل کے خلاف تحقیقات کا آغاز 2011 میں ہوا جبکہ 8 جنوری 2013 سے چیئرمین ایس ای سی پی کی ایما پر ان تحقیقات کو 2016 میں ختم کردیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق تحقیقات کو یوں ختم کیا جانا ایک مجرمانہ عمل ہے اور ان افراد کو مدد فراہم کرنے کے مترادف ہے جن کے خلاف یہ تحقیقات جاری تھیں۔

مزید پڑھیں: ’جے آئی ٹی پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد اور قبل از وقت‘

جے آئی ٹی نے یہ دعوٰی بھی کیا کہ ایس ای سی پی کے کمشنر سے شریف خاندان کے خلاف شروع ہونے والی اور ملتوی کی جانے والی انکوائریوں کے ریکارڈ کو طلب کیا گیا تو کمشنر نے چیئرمین کی جانب سے گواہان کو کہا کہ وہ مقامی محکموں سے انکوائری رپورٹس جمع کرنے سے باز رہیں۔

رپورٹ میں مزید الزام عائد کیا گیا کہ چیئرمین ایس ای سی پی کے حکم پر ریکارڈز میں کی جانے والی چھیڑ چھاڑ کا کام ادارے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی عظیم اکرم نے سرانجام دیا، یہ وہ ہی ڈائریکٹر ہیں جن کا نام چیئرمین ایس ای سی پی نے جے آئی ٹی کے لیے تجویز کیا تھا، جس کا واضح مقصد تحقیقات کو متاثر کرنا تھا۔

یہی وجہ چیئرمین ایس ای سی پی کی طرف سے 'واٹس ایپ فون کال تنازع' کھڑا کرنے کا سبب بنی، جس میں عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار کو پھنسانے کی کوشش کی گئی جبکہ ان کا اس معاملے میں کوئی کردار نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: نیشنل بینک کے صدر بھی پاناما جے آئی ٹی ارکان کے رویے سے نالاں

رپورٹ میں انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے کردار پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے الزام لگایا گیا کہ آئی بی نے جے آئی ٹی ممبر بلال رسول کا فیس بک اکاؤنٹ ہیک کیا، جسے حسین نواز کی جانب سے اپنی درخواست کے ساتھ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی تفصیلات حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق انٹیلی جنس بیورو کی مدد سے حسین نواز نے بلال رسول کے فیس بک اکاؤنٹ پر موجود نجی مواد تک رسائی حاصل کی جو پرائیوسی کی خلاف ورزی ہے۔

مزید کہا گیا کہ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حکومتی مشینری کو شریف خاندان کی حمایت کے لیے غلط انداز میں استعمال کیا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس پر جے آئی ٹی تشکیل، ارکان کا اعلان

جے آئی ٹی نے مزید الزام عائد کیا کہ 24 مئی کے روز تقریباً شام ساڑھے 7 بجے آئی بی کے فیلڈ عملے کو ایک جے آئی ٹی ممبر کے گھر کے اردگرد موجود دیکھا گیا، یہ عملہ بعد ازاں ان کے گھر پہنچا اور ہاؤس کیپر سے مختلف سوالات کیے جس سے اہل خانہ کی تشویش میں اضافہ ہوا۔

اسی طرح رپورٹ میں نیب کے نمائندے پر دباؤ بڑھانے کے لیے قومی احتساب بیورو کو خفیہ ہتھکنڈوں کے استعمال کا ملزم قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق نمائندہ نیب عرفان نعیم منگی کو مجبور کرنے کے لیے ان کے محکمے نے شوکاز نوٹس جاری کیا۔

سپریم کورٹ میں جمر کرائی اس رپورٹ میں وزارت قانون کی جانب سے جان بوجھ کر دستاویزات کو چھپانے، سرکاری دستاویزات سے چھیڑ چھاڑ اور ان کی فراہمی میں تاخیر کے الزامات بھی شامل ہیں۔

خیال رہے کہ 18 مئی کو جے آئی ٹی کی جانب سے وزارت قانون سے درخواست کی گئی تھی بدعنوانی کے خلاف اقوام متحدہ کے کنوینشن کو اعلامیے کے ذریعے جے آٹی سربراہ کے اختیار کے بارے میں آگاہ کیا جائے تاہم کئی یاددہانیوں کے باوجود وزارت نے اس حوالے سے اس وقت تک کوئی اقدام نہیں اٹھایا جب تک اس معاملے کو عدالت کے علم میں نہیں لایا گیا۔

اسی طرح ایف بی آر کی جانب سے 1985 سے لے کر اب تک شریف خاندان کے انکم اور ویلتھ ٹیکس ریٹرنز کی نامکمل اور منتخب معلومات جمع کرائی گئیں، اور کوئی وضاحت بھی نہ پیش کی گئی۔

رپورٹ میں یہ دعوٰی بھی کیا گیا کہ گواہان کو مبینہ طور پر شریف خاندان کے کہنے پر ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ وزیراعظم ہاؤس کا غلط استعمال کرتے ہوئے خفیہ دستاویزات بھی عوامی کی جارہی ہیں۔

جے آئی ٹی کا الزام ہے کہ اتفاق گروپ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او)، جو وزیراعظم نواز شریف کے قریبی ساتھی بھی ہیں، نے وزیراعظم کے کزن طارق شفیع کو ہدایت دی کہ وہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے قبل وزیراعظم ہاؤس آئے۔


یہ خبر 14 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں