اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز کی جانب سے پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے 2 ارکان کو تبدیل کرنے کے لیے جمع کرائی گئی درخواست کو مسترد کردیا۔

ڈان کی خبر کے مطابق جسٹس افضل خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ ’سیاسی مخالفین سے درخواست گزار یا ان کے والد کا تعلق اس سوال کو جنم دینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ تحقیقات غیرجانبدار یا نامکمل ہوسکتی ہے‘۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ جے آئی ٹی ارکان پر لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد اور قبل از وقت ہیں، لہٰذا پاناما تحقیقات کے اس موقع پر جے آئی ٹی کے کسی بھی رکن کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں۔

تین رکنی بینچ کے اس فیصلے کے مطابق حسین نواز کے وکیل نے اپنے دلائل کے دوران کوئی ایسی مثال نہیں دی جس کی بنیاد پر دوران تفتیش کسی افسر کو تبدیل کیا جاسکے۔

تاہم درخواست کی سنوائی کے دوران حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری کے بیٹے ڈاکٹر ارسلان افتخار کے کیس کا حوالہ دیا جس میں ملک ریاض کی جانب سے ارسلان افتخار پر بلا جواز مالی فوائد اٹھانے کا الزام لگایا تھا۔

مزید پڑھیں: حسین نواز کی چوتھی مرتبہ پاناما جے آئی ٹی کے سامنے پیشی

اس کیس کی تحقیقات قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے کی جارہی تھی جس پر ارسلان افتخار نے اعتراض اٹھایا بعد ازاں ایپک کورٹ کے خصوصی بینچ نے نیب کو ارسلان افتخار کے خلاف تحقیقات کرنے سے روک دیا تھا اور معاملے کو ڈاکٹر شیعب سڈل کمیشن کے سپرد کرنے کی ہدایت جاری کی تھی جو اس وقت وفاقی ٹیکس محتسب تھے۔

تاہم پاناما کیس میں خصوصی عدالت کا کہنا تھا کہ عدالت کو درخواست میں کوئی غیر ضرور بات نہیں ملی لہٰذا عدالت ایسے احکامات جاری کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔

تاہم عدالت نے واضح کیا کہ اگر عدالت کو اس کیس کی تحقیقات کے دوران جے آئی ٹی ارکان کی جانب سے کسی بھی قسم کا تعصب اور جانبداری کے واضح ثبوت نظر آئے تو عدالت ان افراد کو تبدیل کرنے کے مناسب احکامات جاری کرے گی۔

دوسری جانب جے آئی ٹی سیکریٹریٹ میں چار گھنٹے طویل سیشن کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جے آئی ٹی ان کے خلاف اور ان کے خاندان کے کسی بھی فرد کے خلاف ایک بھی ثبوت پیش نہیں کر پائے گی۔

حسین نواز کا کہنا تھا کہ شریف خاندان کو ماضی میں بھی اسی طرح کے سیاسی مقدمات کا سامنا کرنا پڑا تھا تاہم وہ آخر میں کامیاب رہے تھے۔

طیارہ سازش کیس کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’طیارہ سازش کیس کا کیا ہوا؟‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے ان کے والد نواز شریف اور خاندان کے دیگر افراد کے خلاف جھوٹے مقدمات چلائے جس میں سے ایک الزام بھی ثابت نہیں کیا جاسکا۔

یہ بھی پڑھیں: حسن نواز بھی پاناما جے آئی ٹی کے سامنے پیش

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) عدالیہ کو ہمیشہ ایک مقدس ادارے کی طرح دیکھتی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ اگر اس معاملے میں ان کے ساتھ کچھ غلط ہوا تو وہ اس معاملے کو سپریم کورٹ، میڈیا اور عوام میں لے جائیں گے۔

خیال رہے کہ حسین نواز نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک پاکستان (ایس بی پی) کے عامر عزیز کی جے آئی ٹی میں شمولیت پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ان کی تبدیلی کے لیے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی۔

پاناما پییر کیس اور جے آئی ٹی کی تشکیل

یاد رہے کہ رواں برس 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔

اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔

جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: جے آئی ٹی کے دو ارکان پر حسین نواز کا اعتراض مسترد

وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز اس سے قبل جے آئی ٹی کے سامنے 3 مرتبہ جبکہ حسن نواز ایک مرتبہ پیش ہوچکے ہیں۔

جے آئی ٹی ارکان پر اعتراض کا معاملہ

یہ بھی یاد رہے کہ گذشتہ دنوں حسین نواز نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو کی گئی ایک ای میل کے ذریعے جے آئی ٹی کے کچھ افسران کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے تھے جن کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ تحقیقات پر مبینہ طور پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

تاہم بعد ازاں جے آئی ٹی کے دو ارکان کے خلاف اعتراض سے متعلق حسین نواز کی درخواست سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے مسترد کردی تھی۔

حسین نواز کی درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے کہا تھا کہ نہ جے آئی ٹی کے کسی رکن کو تبدیل کریں گے نہ ہی کسی کو کام سے روکیں گے، کسی کے خلاف خدشات قابل جواز ہونا ضروری ہیں، ہم نے ہی جے آئی ٹی کے ان ممبران کو منتخب کیا تھا، اگر کسی پر مجرمانہ بدنیتی کا شبہ ہے تو اسے سامنے لائیں اسی صورت میں اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔


تبصرے (0) بند ہیں