مٹھی: تھرپار کر پولیس کا ایک ہندو لڑکی کے اغوا اور جبری مذہب کی تبدیلی کے معاملے پر کہنا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کے مطابق نئے شادی شدہ جوڑے کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔

ایس ایس پی تھر پارکر امیر سعود مگسی کا کہنا ہے کہ ہندو لڑکی ’رویتا‘ کے گھر والوں کو پولیس نے مکمل تحفظ فراہم کیا ہوا ہے اور پولیس ’رویتا‘ اور ان کے گھر والوں کی 30 جون کو پیشی کے دوران ملاقات میں مدد کرے گی۔

انھوں نے بتایا کہ ہندو لڑکی نے اپنی مرضی سے اپنا مذہب تبدیل کیا ہے اور عدالت عالیہ میں جمع درخواست میں انھوں نے کہا ہے کہ اپنی مرضی سے نواز علی شاہ سے شادی کی ہے۔

مزید پڑھیں: مذہب کی جبری تبدیلی کے بل میں ترامیم پر ہندو کونسل کو اعتراض

ہندو لڑکی کے والدین نے الزام لگایا تھا کہ پولیس لڑکی کو ڈھونڈنے میں مدد نہیں کر رہی جس کے جواب میں ایس ایس پی عمر کوٹ نے پولیس پر لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کو عدالت عالیہ کی جانب سے ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ اس جوڑے کو گرفتار نہ کرے۔

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کے رکن قومی اسمبلی اور پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پولیس کے موقف کو مسترد کر دیا اور کہا کہ پولیس لڑکی کو والد کی جانب سے دائر کی گئی ایف آئی آر کے تناظر میں اپنی حفاظتی تحویل میں لے سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے حساس معاملات میں پولیس افسر ہندو لڑکی کی حفاظت کے معاملے میں مداخلت کر سکتی ہے۔

انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت اسمبلی میں ’جبری ہندو شادی کا بل‘ اگر لے آتی تو اس طرح کے واقعات سے بچا جاسکتا تھا۔

ایک اور خبر پڑھیں پاکستانی اقلیتیں مردم شماری کے نتائج سے پرامید

واضح رہے کہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں ایک کم عمر ہندو لڑکی کو اغوا کے بعد مبینہ طور پر زبردستی دائرہ اسلام میں داخل کرنے کے معاملے پر ہندو برادری میں سخت غم و غصے پایا جاتا ہے۔

بعد ازاں ہندو لڑکی نے اپنے شوہر ’نواز علی شاہ‘ کے ہمراہ عمرکوٹ کے مقامی صحافیوں سے ملاقات کی تھی اور انھیں اپنی شادی اور اسلام قبول کرنے کے حوالے سے بتایا تھا۔

رویتا میگھوار نے 16جون کو اسلام کوٹ میں مقامی صحافیوں کو بتایا تھا کہ اسے اغوا نہیں کیا گیا تھا بلکہ وہ اپنی مرضی سے نواز علی شاہ کے ساتھ گئی تھیں جبکہ انھوں نے اپنے اور اپنے شوہر کی حفاظت کا مطالبہ بھی کیا تھا۔


تبصرے (0) بند ہیں