تھرپارکر: سندھ کے ضلع تھرپارکر میں ایک کم عمر ہندو لڑکی کو اغوا کے بعد مبینہ طور پر زبردستی دائرہ اسلام میں داخل کرنے کے معاملے پر ہندو برادری میں سخت غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔

اطلاعات کے مطابق نگرپارکر کے گاؤں ونہارو کی سید برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے 6 جون کو رویتا میگھوار نامی ایک 16 سالہ لڑکی کو اغوا کیا تھا۔

تاہم گذشتہ روز (15 جون) کو ہندو لڑکی نے اپنے شوہر ’نواز علی شاہ‘ کے ہمراہ عمرکوٹ کے مقامی صحافیوں سے ملاقات کی اور انہیں اپنی شادی اور اسلام قبول کرنے کے حوالے سے بتایا۔

اس لڑکی نے دعویٰ کیا کہ اس نے عمرکوٹ کے قصبے سمارو ٹاؤن کے ایک اسلامی مبلغ پیر محمد ایوب جان کی موجودگی میں اسلام قبول کیا۔

مزید پڑھیں سندھ میں مذہب کی جبری تبدیلی پر 5 سال قید کی سزا

رویتا میگھوار نے جمعہ (16جون) کو اسلام کوٹ میں مقامی صحافیوں کو بتایا کہ اسے اغوا نہیں کیا گیا تھا بلکہ وہ اپنی مرضی سے نواز علی شاہ کے ساتھ گئی تھی جبکہ اس نے اپنے اور اپنے شوہر کی حفاظت کا مطالبہ کیا۔

تاہم ہندو برادری اور لڑکی کے والد سترام داس میگھوارنے اصرار کیا ہے کہ ان کی بیٹی کو اغوا کرکے زبردستی دائرہ اسلام میں داخل کرایا گیا، انہوں نے الزام لگایا کہ سید برادری کے کچھ بااثر افراد نے گھر والوں کو نیند کی دوائیں کھلا کر بیٹی کو اغوا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ بار بار التجا کرنے کے باوجود تھر پولیس نے لڑکی کو تلاش کرنے میں کوتاہی برتی۔

اسلامی مبلغ کی جانب سے جاری کردہ ’میرج سرٹیفیکیٹ‘ کے مطابق شادی کرنے والی لڑکی کی عمر 18 برس ہے اور اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے جبکہ اس کا اسلامی نام ’گل نار‘ ہے۔

یہ بھی پڑھیں مذہب کی جبری تبدیلی کے بل میں ترامیم پر ہندو کونسل کو اعتراض

تاہم لڑکی کے اسکول سرٹیفکیٹ کے مطابق اس کی تاریخ پیدائش 14 جولائی 2001 ہے جس کے حساب سے لڑکی کی عمر 16 سال ہے۔

تھر سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے اور پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی نے ہندو لڑکی کے مبینہ اغوا اور مذہب کی تبدیلی پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔

ڈاکٹر رمیش نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک ہندو لڑکی کی عمر 18 سال سے کم ہے تو ہندو میرج ایکٹ کے تحت اس کے مذہب کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

مختلف شعبہ ہائے زندگی اور سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کارکنان نے رویتا کو جلد بازیاب کرا کر عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔

مزید پڑھیں: مذہب کی جبری تبدیلی پر ہندو برادری خوفزدہ

انہوں نے ہندو لڑکی کے اغوا کو تھر میں امن اور ہندو مسلم بھائی چارگی کی فضا کو خراب کرنے کی کوشش قرار دیا۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر بھی لوگوں نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

لوگوں نے ’میرج سرٹیفکیٹ‘ کی درستگی پر سوالات اٹھاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پیر محمد ایوب جان ایک متنازع شخصیت ہیں اور پہلے بھی اس طرح کے معاملات میں ملوث رہے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر انجینیئر گیان چند نے بھی اس معاملے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی اقلیتیں مردم شماری کے نتائج سے پرامید

رویتا میگھوار کے والد کی درخواست پر ڈانو دھندال پولیس اسٹیشن میں سید نواز علی شاہ، سید نور علی شاہ، محمد نوہریو جونیجو اور شیر علی جونیجو کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔

تاہم ایس ایچ او ڈانو دھندال مبارک راجر کا کہنا ہے کہ رویتا میگھوار اور اس کے شوہر سید نواز علی شاہ نے لڑکی کے والد اور دیگر رشتہ داروں سے حفاظت کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہوئی ہے۔

پولیس ایف آئی آر میں نامزد دیگر افراد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

S.T HAIDER Jun 17, 2017 01:12am
I DON'T UNDERSTAND THAT WHY ONLY HINDU GIRLS ARE BECOME MUSLIM. WHY HINDU BOYS ARE NOT BECOME MUSLIM AND MARRIED TO A MUSLIM GIRL. CAN ANYBODY PLEASED TO EXPLAIN THIS ISSUE.