پاکستانی اقلیتیں مردم شماری کے نتائج سے پرامید

21 مئ 2017
مردم شماری عملہ عیسائی خاتون سے معلومات حاصل کرتے ہوئے—فوٹو: اے ایف پی
مردم شماری عملہ عیسائی خاتون سے معلومات حاصل کرتے ہوئے—فوٹو: اے ایف پی

پسماندگی، تشد اورمسلسل توہین مذاہب جیسے الزامات برداشت کرنے والی پاکستان کی اقلیتوں کو امید ہے کہ 1998 کے بعد ہونے والی ملک کی پہلی مردم شماری ان کے لیے زیادہ سے زیادہ سیاسی نمائندگی اور حقوق کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہوگا۔

ملک میں عیسائیوں کے سب سے بڑے علاقوں میں شمار ہونے والے ضلع لاہور کے علاقے یوحن آباد کے رہائشی ساجد کرسٹوفر کے مطابق مردم شماری میں شامل کیے جانے پر ان کی کمیونٹی اپنے مستقبل کے لیے پرامید ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری سے ان کی کمیونٹی کو 2 طرح سے فائدے حاصل ہوں گے، ایک تو ملک میں ان کی کمیونٹی کی حتمی آبادی کا پتہ چلے گا، دوسرا یہ کہ آبادی کے تناسب سے پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی بڑھ جائے گی، جو اس وقت انہیں 1981 میں ہونے والی مردم شماری کے بنیاد پر دی جا رہی ہے۔

پاکستان کی آبادی میں گزشتہ کئی دہائیوں سے تیزی سےاضافہ ہوا ہے، اوراسے آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹے برے ملک کا درجہ حاصل ہے، اندازے کے مطابق ملک کی آبادی 20 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مردم شماری:دوسرے مرحلے میں سکھ مذہب کا خانہ شامل کرنےکا حکم

آئینی طور پر پاکستان میں ہر 10 سال بعد ایک بار مردم شماری ہونا لازمی ہے، مگر یہاں گزشتہ 2 دہائیوں سے مردم شماری ہی نہیں ہوئی تھی۔

مردم شماری کے معاملے پر سیاستدانوں کی جانب سے کئی سال سے تاخیر کی جاتی رہی، مگر بعد ازاں عدالتی احکامات پر رواں برس مارچ سے مردم شماری کا آغاز کیا گیا۔

علاوہ ازیں پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے متنازع تخمینے لگائے جاتے ہیں، اندازوں کے مطابق ملک میں عیسائیوں کی تعداد 20 لاکھ سے ایک کروڑ، جب کہ ہندوؤں کی تعداد 25 لاکھ سے 50 لاکھ تک بتائی جاتی ہے۔

اقوام متحدہ (یو این) کے ادارہ برائے آبادی و فنڈ کی مشیر نینسی اسٹیگلر کا کہنا ہے کہ مردم شماری پاکستان کی نہ صرف اقلیتی برادریوں بلکہ پورے ملک کی منصوبہ بندی کے لیے اہم ذریعہ ہے۔

مردم شماری کے دوران اس بات کی قیاس آرائیاں کی جاتی رہیں کہ ڈیٹا کو متنازع بنایا جائے گا، اسے نئی سیاسی حلقہ بندیوں سمیت دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

اقلیتوں کی توقعات

مزید پڑھیں: مردم شماری میں اور کیا کیا شمار ہونا چاہیئے تھا

ویسے تو مردم شماری میں لوگوں پر کوئی بھی قید نہیں، وہ خود کو ایک مسلمان، عیسائی، ہندو، احمدی یا دوسری اقلیتی برادری کے طور پر شمار کرواسکتے ہیں۔

مگر ہندو سماجی کارکن کپیل دیو نے مردم شماری میں ذات پات کا آپشن دینے پر حکومت پر الزام عائد کیا کہ اس عمل سے لوگ تقسیم ہوگئے، جب کہ برادریوں کا خیال ہے کہ انہیں کسی ایک فرقے کے طور پر شمار کیا جانا چاہئیے تھا، اورایسے ہی معاملات کی وجہ سے سکھ برادری کو شمار ہی نہیں کیا جاسکا۔

خیال رہے کہ سکھ برادری کو شمار نہ کیے جانے پر رادیش سنگھ نامی شخص نے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست بھی داخل کی، جس پر عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے حکم دیا کہ سکھ برادری کو شمار کیے جانے کا بندوبست کیا جائے۔

مگر چوں کہ مردم شماری پہلے ہی شروع ہوچکی تھی،جس وجہ سے رادیش سنگھ کو سکھوں کو شمار کیے جانے کی امید کم تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سکھ مذہب کا خانہ شامل کرنے کا فیصلہ معطل

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ بات کرتے ہوئے رادیش سنگھ نے الزام عائد کیا کہ حکومت نے عدالتی احکامات کو نظر انداز کیا۔

اگرچہ ساجد کرسٹوفر کی کمیونٹی کے کئی افراد کا خیال ہے کہ اگر انہیں درست طریقے سے شمار کیا جائے تو بھی ان کی حالت میں اس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں آئے گی جب تک ملک میں غیر مسلمانوں کے لیے خیالات میں تبدیلی نہیں آتی، مگر ساجد کرسٹوفر تبدیلی کے لیے پر امید ہیں۔

ساجد کرسٹوفر کے خیال سے اتفاق کرتے ہوئے عیسائی طالبہ ثانیہ نشتر بھی کہتی ہیں کہ امتیازی سلوک برتنے والے عناصر ہمیشہ نہیں رہیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں