اسلام آباد: پاناما پیپرز کے دعوؤں سے متعلق شریف خاندان کے اثاثوں کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے گذشتہ روز جمع کرائی گئی چوتھی اور حتمی رپورٹ کے بعد وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔

پاناما جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد ملک کی سیاسی صورت حال میں جاری ہلچل میں مزید تیزی آگئی ہے اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے وزیر اعظم کو استعفے کا وعدہ یاد دلانے کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے پر رابطوں اور مشاورت کا سلسلہ شروع کردیا۔

اس کے ساتھ ہی اپوزیشن سمیت ملک کی دیگر جماعتوں اور وکلاء تنظیموں نے حکومت اور خاص طور پر وزیراعظم نواز شریف کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے دہرایا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کو مستعفی ہوجانا چاہیے۔

مزید پڑھیں: جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش

ان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان کے پاس جو الہ دین کا چراغ ہے وہ قوم کو بھی دے دیں، پاناما کا مسئلہ صرف مسلم لیگ (ن) کا نہیں بس ایک خاندان کا ہے، وزیراعظم مستعفی ہو کر عدالت کو آزادانہ فیصلہ کرنے کا موقع دیں۔

بعد ازاں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے وزیراعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے راولپنڈی میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ سپریم کورٹ سے ان کے سیاسی تابوت نکلے گے۔

انہوں نے دہرایا کہ وزیراعظم نواز شریف فوری طور پر مستعفی ہوں ورنہ وہ جیل جائیں گے اور ساتھ ہی مطالبہ کیا کہ یہ معاملہ نیب میں جانے سے پہلے نواز شریف سے استعفیٰ لیا جائے۔

شیخ رشید نے کہا کہ قوم کسی صورت جمہوریت کو لپیٹنے نہیں دے گی اور ساتھ ہی پیش گوئی بھی کی کہ نواز شریف کا مستقبل جیل میں گزرے گا۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اگر حکومت کے خلاف سازش ہورہی ہے تو وہ بتائیں سازش کون کررہا ہے جبکہ نوازشریف نے اپنی صاحبزادی کا سیاسی مستقبل بھی تباہ کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن کا وزیراعظم کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ

ادھر پاکستان ہاؤس کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران وزیر اعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے سربراہ مصطفی کمال کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف عہدے پر رہنے کا اخلاقی جواز کھو بیٹھے ہیں، دفاع کریں گے تو ملک اور جمہوریت کو نقصان پہنچے گا۔

دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ بار نے وزیراعظم کو عہدے سے مستعفی ہونے کے لیے ایک ہفتے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف گھر نہ گئے تو ایک بار پھر ملک گیر تحریک چلائی جائے گی۔

وزیراعظم پر مستعفی ہونے کے لیے دباو بڑھانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ بار نے 13 جولائی کو احتجاجی ریلی نکالنے اور 15 جولائی کو آل پاکستان وکلاء نیشنل ایکشن کمیٹی کا اجلاس بلانے کا اعلان بھی کردیا۔

اس سے قبل قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما خورشید شاہ، اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) شاہ محمود قریشی کے درمیان آج (11 جولائی) کو اہم ملاقات ہوئی، جس میں جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد وزیراعظم سے مستعفی ہونے کے مطالبے پر بات چیت کی گئی۔

اس ملاقات میں شیریں مزاری اور شفقت محمود بھی موجود تھے۔

مزید پڑھیں: چیئرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی کے خلاف مقدمہ درج

خورشید شاہ اور شاہ محمود قریشی کے درمیان ہونے والی ملاقات میں سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ پر اظہار خیال کیا گیا اور دونوں رہنماؤں کا ماننا تھا کہ وزیراعظم کے مستعفی ہوجانے سے جمہوری نظام کو کوئی خطرہ نہیں۔

اس ملاقات میں وزیراعظم نواز شریف پر استعفی کے لیے پارلیمنٹ میں دباؤ بڑھانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے ملاقات کے بعد پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ پر پیپلز پارٹی کی من و عن وہی رائے ہے جو پی ٹی آئی کی ہے، اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا بیان بھی سامنے آچکا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد نوازشریف، سیاسی اور اخلاقی جواز کھو چکے ہیں اور ہم دونوں جماعتوں کا یہی نکتہ نظر ہے کہ نوازشریف کو فی الفور وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوجانا چاہیے۔

پی ٹی آئی کے رہنما نے بتایا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ریکوزیشن کرنے پر بھی اتفاق ہوا ہے اور قومی اسمبلی اجلاس بلانے کا مقصد نوازشریف کو اپنا قول یاد کرانا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے ہم دیگر اپوزیشن جماعتوں سے بھی رابطہ کریں گے۔

بعد ازاں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے بات چیت کے دوران وزیراعظم سے فی الفور مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف اپنا نیا وزیر اعظم دیں تو کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد نوازشریف کے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں، جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق نواز شریف، ان کی فیملی اور شہباز شریف ملوث نظر آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج پھر پارلیمنٹ کوایک خطرہ نظر آرہا ہے، کل کنٹینر سے پارلیمنٹ کو خطرہ تھا، آج نوازشریف اور ان کی پارٹی کے رویے سے خطرہ ہے، اگر نوازشریف نے خود کو وزارت عظمیٰ سے الگ کرلیا تو تاریخ ان کو یاد رکھے گی۔

یہ بھی پڑھیں: مریم نوازجےآئی ٹی میں پیش:’سپریم کورٹ آرڈرمیں میرانام نہیں تھا‘

خورشید شاہ نے کہا کہ اپنے دور حکومت میں ہم بھی عدالت عظمی کے فیصلے کو چیلنج کرسکتے تھے، ہم نے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلے کے سامنےسر جھکایا تھا۔

ان کاکہنا تھا کہ مسلسل 4 ماہ سے جس رویے کا اظہار حکومت کررہی ہے وہ باعث تشویش ہے، حکومت عدالتوں کو چیلنج کررہی ہے اور فوج کو بدنام کرنے کی کوشش کررہی ہے، آج پاکستان اندرونی اور بیرونی مسائل کا شکار ہے جبکہ ملک کو سب سے بڑا خطرہ موجودہ حکومت سے ہے۔

جے آئی ٹی حتمی رپورٹ

خیال رہے کہ پاناما پیپرز کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے حکم پر شریف خاندان کے اثاثوں کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے ارکان نے واجد ضیاء کی سربراہی میں گذشتہ روز (10 جولائی) کو عدالت عظمیٰ میں پیش ہوکر جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں 3 رکنی عمل درآمد بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق جس وقت جے آئی ٹی کے ارکان سپریم کورٹ پہنچے تو ان کے ساتھ دو باکسز میں 11 جلدوں پر مشتمل ثبوت بھی کمرہ عدالت میں لے جائے گئے جن پر لفظ ’ثبوت‘ تحریر تھا۔

سماعت کے دوران ایک موقع پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ ریکارڈ ٹیمپرنگ کا کیا ہوا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایف آئی اے نے چیئرمین ایس ای سی پی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

اس پر عدالت نے کہا کہ ایس ای سی پی کے چیئرمین ظفر حجازی کے خلاف آج ہی ایف آئی آر درج ہونی چاہیے اور یہ بھی سامنے آنا چاہیے کہ کس کے کہنے پر ریکارڈ میں ردو بدل کیا گیا۔

مزید پڑھیں: 'ہمارا قصور کیا ہے'؟ حسن نواز کا جے آئی ٹی سے سوال

اس کے بعد سپریم کورٹ نے چیئرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا حکم جاری کردیا۔

اس کے علاوہ عدالت نے وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز کی فوٹو لیک کے معاملے پر فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو اس معاملے میں ملوث شخص کے خلاف کارروائی کی اجازت دی۔

علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے غلط رپورٹنگ کرنے پر جنگ گروپ کے پبلشر، ایڈیٹر اور پرنٹر کے نام طلب کرتے ہوئے جنگ گروپ، رپورٹر احمد نورانی اور میر جاوید الرحمٰن کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں