اسلام آباد: پاناما پیپرز کیس میں ہونے والی تازہ ترین پیش رفت میں برٹش ورجن آئی لینڈز کے قانونی افسر نے شریف خاندان کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لیے قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی معاونت سے انکار کردیا۔

واضح رہے کہ جے آئی ٹی نیسکول اور نیلسن انٹرپرائزز نامی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کررہی تھی جس کی ملکیت شریف خاندان کے لندن میں موجود فلیٹس ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن سے تعلق رکھنے والی برٹش ورجن آئی لینڈز اٹارنی جنرل کی کراؤن کونسل سارا پوٹر کا یہ جواب جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کی جانب سے مشترکہ قانونی معاونت کے درخواست کے جواب میں سامنے آیا۔

جے آئی ٹی نے برٹش ورجن آئی لینڈز سے چند دستاویزات کی تصدیق، توثیق اور ان کے مستند ہونے کے حوالے سے مدد فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔

واضح رہے کہ جے آئی ٹی کی تین درخواستوں کے جواب میں آئی لینڈز کے اٹارنی جنرل چیمبر سے موصول ہونے والا یہ دوسرا جواب ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی ملازمت:دبئی کی قانونی فرم نے دستاویزات کی تصدیق کردی

برٹش ورجن آئی لینڈز کی نمائندہ کے علاوہ قطر کے سابق وزیراعظم شیخ حماد بن جاسم بن جابر الثانی کا ایک خط بھی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے پیش کیا گیا۔

شیخ حماد کی جانب سے موصول ہونے والے لفافے میں بند خط کو دونوں جماعتوں کے وکلاء کی موجودگی میں کھولا گیا۔

خیال رہے کہ یہ دونوں دستاویزات جے آئی ٹی کو بھیجی گئی تھی لیکن چونکہ تحقیقاتی ٹیم فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے سیکریٹریٹ میں اپنی انکوائری مکمل کرچکی ہے لہذا خطوط کو سپریم کورٹ رجسٹرار کے حوالے کردیا گیا۔

پہلے خط میں آئی لینڈز کی قانونی افسر کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی درخواست پر مشترکہ قانونی معاونت فراہم کرنا ان کی سرزمین کے قوانین کے مطابق نہیں۔

خط میں مزید وضاحت دی گئی کہ جے آئی ٹی کی جانب سے فراہم کردہ حقائق میں پس منظر کی معلومات شامل نہیں جس سے ان کمپنیوں اور کسی مبینہ جرم کا تعلق واضح ہوسکے۔

خط کے مطابق، درخواست میں یہ بھی بیان نہیں کیا گیا کہ مذکورہ کمپنیاں کس طرح کرپشن میں ملوث ہوسکتی ہیں۔

مزید پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

جواب میں مزید کہا گیا کہ درخواست میں یہ واضح ہونا چاہیئے تھا کہ بادی النظر میں جرم کس طرح کیا گیا جبکہ اس حوالے سے ملکی قانون کا صرف حوالہ نہیں بلکہ کاپی فراہم کی جانی چاہیئے تھی۔

آئی لینڈز کی قانونی افسر کے جواب کے مطابق درخواست میں اس بات کی نشاندہی بھی نہیں کی گئی کہ کیا اس حوالے سے فوجداری تحقیقات جاری ہیں یا کمپنیوں اور ان کے بینیفیشل مالکان کے خلاف کارروائی کی جاچکی ہے۔

قانونی افسر کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں نتیجتاً جے آئی ٹی کی درخواست پر معاونت فراہم کرنا ممکن نہیں، تاہم یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ اگر ان بےضابطگیوں کو درست کردیا جاتا ہے تو نئی درخواست دائر کی جاسکتی ہے۔

دوسری جانب، سابق قطری وزیراعظم نے اپنے تازہ ترین خط میں وضاحت دی کہ جے آئی ٹی کی جانب سے دائرہ اختیار پر اصرار غیر متعلق بحث ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لندن آباد

ان کا کہنا تھا کہ وہ دائرہ اختیار کے معاملے پر مزید مباحثے یا دلیل کا حصہ نہیں بنیں گے کیونکہ اس حوالے سے ان کا مؤقف واضح ہے۔

نئے خط میں بھی اپنے پرانے مؤقف کو دہراتے ہوئے شیخ الثانی نے پاکستانی قوانین اور عدالتوں کے دائرہ اختیار کو ماننے سے انکار کیا۔

سابق قطری وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی یہ دلیل کہ سپریم کورٹ کو خط لکھ کر میں نے پاکستانی قوانین اور عدالتوں کے دائرہ اختیار کو تسلیم کرلیا نامناسب اور حقائق کے برخلاف ہے۔

خط میں مزید کہا گیا کہ اس سے قبل سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے خطوط میں حقائق پر مبنی معلومات شامل تھی جبکہ ان خطوط کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ شیخ الثانی نے دائرہ اختیار کو تسلیم کرلیا۔

سابق قطری وزیراعظم نے اس خط میں دوحہ میں جے آئی ٹی سے ملنے کے لیے اپنی رضامندی کو بھی بیان کیا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے یہ دونوں خطوط تمام سیاسی جماعتوں کو بھی فراہم کیے گئے۔


یہ خبر 21 جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں