رواں سال طب کے شعبے میں نوبیل انعام ان تین سائنسدانوں کے نام رہا جنھوں نے انسانی زندگی کے ایک بڑے معمے کو حل کیا۔

امریکا سے تعلق رکھنے والے جیفری سی ہال، مائیکل روش بیش اور مائیکل ڈبلیو ینگ کو حیاتیاتی گھڑی کو کنٹرول کرنے والے مالیکیولر میکنزمز کی دریافت پر دنیا کے اس سب سے بڑے اعزاز سے نوازا گیا۔

ان تینوں ماہرین طب نے انسانی زندگی کے ان اسرار پر روشنی ڈالی کہ کس طرح زندگی وقت کو ٹریک کرتی ہے اور خود کو سورج کی حرکت کے مطابق تبدیل کرتی ہے۔

مزید پڑھیں : آنگ سان سوچی سے نوبل انعام واپس لینا ممکن؟

انسانی حیاتیاتی گھڑی یا سرکیڈین ردہم وہ چیز ہے جس کے ذریعے جسم ہر گزرتے دن کے ساتھ خود کو ریگولیٹ کرتا ہے اور یہ عمل نیند، انسانی رویوں، ہارمونز کی سطح، جسمانی درجہ حرارت اور میٹابولزم پر اثرانداز ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نیند متاثر ہونا کے تباہ کن نتائج مرتب ہوتے ہیں اور متعدد جان لیوا امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ان تینوں محققین نے دریافت کیا کہ زمین پر موجود ہر قسم کی زندگی یعنی نباتات سے لے کر انسانوں تک، کی حیاتیاتی گھڑی خود کو ریگولیٹ کرنے کے لیے سورج کا استعمال کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : معیشت پر نوبیل انعام یافتہ پروفیسر پاکستان کو کیا سکھا سکتا ہے؟

انہوں نے ثابت کیا کہ یہ گھڑی جسمانی افعال کو متاثر کرسکتی ہے اور لوگوں اور زندگی کے دیگر شعبوں کے لیے بڑے مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔

نوبیل کمیٹی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ان محققین کی وجہ سے ہم اپنی حیاتیاتی گھڑی کے اندر جھانکنے میں کامیاب ہوئے اور اس کے افعال کو جان سکے۔

ان تینوں نے ہماری اس حیاتیاتی گھڑی کا کنٹرول انسانی ہاتھ کے حوالے سے تو کوئی طریقہ نہیں بتایا مگر یہ ضرور ثابت کیا کہ اچھی نیند صحت کے لیے کتنی ضروری ہے۔

ان تینوں کو نوبیل انعام کے ساتھ دس لاکھ ڈالرز بھی دیئے جائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں