آنگ سان سوچی سے نوبل انعام واپس لینا ممکن؟

07 ستمبر 2017
آنگ سان سوچی — اے ایف پی فائل فوٹو
آنگ سان سوچی — اے ایف پی فائل فوٹو

میانمار میں حکومتی فورسز کے ہاتھوں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاﺅن کے بعد دنیا بھر سے ہزاروں افراد نے نوبل کمیٹی نے جمہوریت پسند رہنماءآنگ سان سوچی سے امن انعام واپس لینے کے مطالبے کے لیے آن لائن پٹیشن پر دستخط کیے ہیں۔

تاہم اب ناروے سے تعلق رکھنے والے نوبل کمیٹی نے اس حوالے سے اپنا موقف واضح کردیا ہے۔

پٹیشن میں کہا گیا ہے ' میانمار کی کودساختہ حکمران نے اپنے ملک میں انسانیت کے خلاف جرم کو روکنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا'۔

واضح رہے کہ چینج ڈاٹ او آر جی کی آن لائن پٹیشن پر جمعرات تک 3 لاکھ 65 ہزار دستخط کیے جاچکے ہیں۔

واضح رہے کہ میانمار کی ریاست رکھائن میں مبینہ طور پر روہنگیا عسکریت پسندوں کی جانب سے پولیس چیک پوسٹوں پر حملوں کے بعد سے فوج کے کریک ڈاؤن میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ روہنگیا مسلمانوں کے 60 ہزار سے زائد گھروں کو بھی نذر آتش کیا جاچکا ہے۔

ان واقعات کے میڈیا پر رپورٹ ہونے کے بعد سے نوبیل امن انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو عالمی برادری خصوصاً مسلمان ممالک کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا ہے، جنہوں نے روہنگیا مسلمانوں سے فوج کے برتاؤ کے خلاف کچھ بولنے سے انکار کردیا تھا۔

مزید پڑھیں : روہنگیا بحران سے متعلق 'غلط معلومات' پر آنگ سان سوچی کی مذمت

آنگ سان سوچی کو 1991 میں نوبل امن انعام سے نوازا گیا تھا جن کی جماعت کی حکومت اس وقت وہاں قائم ہے۔

اقوام متحدہ نے جمعرات کو بتایا کہ اب تک 1 لاکھ 64 ہزار روہنگیا افراد گزشتہ دو ہفتے کے دوران میانمار سے بھاگ کر بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔

اب آنگ سان سوچی کے امن نوبل انعام کے حوالے سے نوبل انسٹیٹوٹ کے سربراہ اولاو نجولسٹیڈ نے کہا ہے کہ جب ایک بار کسی کو نوبل انعام دے دیا جائے تو اسے واپس لینا ناممکن ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آنگ سان سوچی روہنگیا مسلمانوں پر جبروتشدد کی مذمت کریں: ملالہ

اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ' نہ تو الفریڈ نوبل اور نہ ہی نوبل فاﺅنڈیشن نے کسی بھی شعبے میں دیئے جانے والے انعام کی واپسی کا امکان فراہم کیا ہے'۔

ان کے بقول ' اس حوالے سے اقدامات انعام دیئے جانے سے قبل یا اعلان سے قبل ہی کیے جاسکتے ہیں جس کے بعد مزید کوئی اقدام نہیں کیا جاسکتا'۔

تبصرے (1) بند ہیں

فرید مانوس سیت پور Sep 08, 2017 09:13pm
اگر کسی مسلمان کے پاس یہ نوبل انعام ہوتا تو کب کا واپس لیا جا چکا ہوتا ،دنیا میں صرف مسلمان ہی ہیں جو امتیازی سلوک کا شکار ہورہے ہیں جبکہ مسلم حکم رانوں کو کرپشن سے فرصت نہیں ، اگر دنیا میں کسی مسلمان حکمران کے پاس حمیت ہوتی تو میانمار میں مسلما نوں کا قتل عام کب کا بند ہوچکا ہوتا ، مگر وائے افسوس ، کاروان کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا ، غیرت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے۔۔۔۔