کراچی: ماہرین کے مطابق ملک میں سالانہ تقریباً 5 لاکھ لوگ ادویات میں غلطی کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، ان غلطیوں میں دواؤں کی غلط تجویز، خوراک کی زیادتی اور دواؤں کے ضمنی اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) شامل ہیں۔

پاکستان سوسائٹی آف ہیلتھ سسٹم فارماسسٹس (پی ایس ایچ پی) کے صدر عبداللطیف شیخ نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ 'پاکستان میں سالانہ 5 لاکھ افراد، بشمول خواتین اور بچے، ادویات کی غلط تجویز، تجویز کردہ مقدار سے زیادہ دوا لینے، ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر دوا لینے اور دواؤں کے ضمنی اثرات کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں'۔

عبداللطیف شیخ کا کہنا تھا کہ دواؤں کے معاملے میں بین الاقوامی طریقہ کار کو اپنا کر ان اموات کی روک تھام کی جاسکتی ہے، انہوں نے بتایا کہ امریکا میں ہر سال ان وجوہات کی بناء پر 80 ہزار لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں، مگر پاکستان میں مطلوبہ مکینزم کی عدم موجودگی کی وجہ سے سرکاری طور پر اعداوشمار دستیاب نہیں ہیں۔

انہوں نے بتایا، 'ہمارے پاس حتمی ڈیٹا تو موجود نہیں، مگر غلط ادویات تجویز کرنے اور دیگر مہلک غلطیوں کی وجہ سے اندازاً 4 سے 5 لاکھ لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں، یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے جس پر حکام اور فارماسسٹس کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے'۔

مزید پڑھیں: دردکش ادویات کا بکثرت استعمال ہارٹ اٹیک کا باعث

پی ایس ایچ پی کے صدر کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم ہفتے کے روز اپنی دوسری بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرے گی جس کا مقصد پاکستانی ہسپتالوں میں ادویات سے متعلق غلطیوں اور مریضوں کو بحفاظت ادویات کی فراہمی اور دیگر مسائل پر توجہ دینا ہوگا۔

انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کے نظامِ صحت میں فارماسسٹس کو ان کا جائز کردار ادا نہیں کرنے دیا جاتا اور ہسپتالوں میں ان کی بھرتی کے باوجود ادویات، خوراک اور دیگر مسائل کے بارے میں ان سے مشورہ نہیں کیا جاتا جس سے سنگین مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

مگر ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں اب فارماسسٹس کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ 'سندھ میں حال ہی میں سیکڑوں فارماسسٹس بھرتی کیے گئے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ انہیں ادویات سے متعلق معاملات میں اپنے علم اور ہنر کو استعمال کرنے کی اجازت دی جائے گی'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے موجودہ نظامِ صحت میں دواؤں کے منفی اثرات رپورٹ کرنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے نہ ڈاکٹر اور نہ ہی مریض دواؤں کے منفی و ضمنی اثرات کو حکام تک پہنچا سکتے ہیں، اس کی وجہ سے کئی منفی اثرات رکھنے والی دوائیں اب بھی عوام کے لیے عام دستیاب ہیں اور تجویز بھی کی جاتی ہیں۔


یہ خبر 11 اکتوبر 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں