لندن میں مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کے بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف نے پارٹی میں اختلافات کی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ’مائنس نواز‘ فارمولا نہیں اپنایا جارہا۔

اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے پاناما کیس کے حوالے سے دیئے جانے والے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’کچھ بھی شفاف نہیں، اگر یہ سماعت منصفانہ ہوتی تو مجھے اقامہ پر نہیں پاناما پر نکالا جاتا‘.

پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی ملاقات کے دوران 2018 میں ہونے والے انتخابات اور نواز شریف اور ان کے اہل خانہ پر کیسز بھی زیر بحث آئے۔

احتساب عدالت کی جانب سے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں جبکہ انہیں 3 نومبر کو پیش ہونے کا حکم بھی دیا گیا تاہم نواز شریف نے 2 نومبر کو پاکستان آنے کا اعلان کررکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت لندن پہنچ گئی، اہم فیصلوں کا امکان

نواز شریف کی جانب سے پاناما پیپر کیس میں نااہلی کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنانے پر یہ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت سابق وزیراعظم کو ملکی اداروں سے نرمی اختیار کرنے پر نہیں منا سکی۔

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ انہوں نے شہباز شریف سے ملاقات کے دوران سیاسی صورت حال اور ملک میں جاری ترقیاتی کاموں پر بات چیت کی ہے۔

ملاقات کے بات میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے صحافیوں سے سوال کیا کہ کون مسلم لیگ (ن) کو توڑ رہا ہے؟ پارٹی نے خود اپنا چیئرمین نواز شریف کو منتخب کیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ وہ حکومت سے ایک دن کی چھٹی لیکر اپنے اخراجات پر لندن آئے ہیں۔

مزید پڑھیں: شاہد خاقان عباسی کی لندن روانگی سے ’وزیر اعظم ہاؤس لاعلم‘

وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ قطر سے لندن کلثوم نواز کی عیادت کے لیے اپنی ذاتی حیثیت میں آئے ہیں۔

بعد ازاں انھوں نے میڈیا نمائندوں سے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ لندن سیاست پر بات کرنے اور اگلے انتخابات کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے آئے تھے۔


یہ خبر 31 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں