اسلام آباد : وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ امریکا کہ ساتھ تعلقات خوشگوار نہیں ہیں تاہم بات چیت کا سلسلہ جاری ہے اور ہر فورم پر پاکستان کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔

امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن کے دورہ پاکستان کے بعد سینیٹ میں پالیسی بیان دیتے ہوئے خواجہ محمد آصف کا کہنا تھا کہ امریکا اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان کو قصوروار ٹھہرا کر ڈالتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی جنوبی ایشیا کے حوالے سے پالیسی اصل میں افغانستان کے حوالے سے پالیسی ہے اور اسے ان فوجی جرنیلوں نے بنایا ہے جنھوں نے افغانستان میں ہزیمت اٹھائی جبکہ امریکا کو غور کرنا چاہیے اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو چاہیے کہ وہ پالیسی فراہم کرے۔

مزید پڑھیں: دہشت گردوں کے تحفظ کا الزام، خواجہ آصف امریکا پر برس پڑے

خواجہ آصف نے کہا کہ امریکا کے اسٹیٹ سیکریٹری نے امریکی سینیٹ میں کہا ہے کہ پاکستان موثر انٹیلی جنس رابطہ چاہتا ہے اگر ہمیں موثر انٹیلی جنس شیئرنگ ملے تو بہتر نتائج مل سکتے ہیں، وفاقی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ہم امریکا کیساتھ افغانستان امن عمل میں شریک ہیں ہماری سرحد افغانستان کیساتھ ہے ہم جغرافیائی تبدیلی نہیں کر سکتے‘۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کے قیام اور استحکام کے خواہشمند ہیں، ’ہم ایس ای او کے پلیٹ فارم کو احسن انداز میں استعمال کریں گے‘۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حالات مسلسل بہتری کی طرف جارہے ہیں جہاں کمی کوتاہی ہے اسکی بہتری کے لیے اقدام اٹھائیں گے جو نکات یہ ایوان فراہم کرے انہی نکات پر پاکستان کی پالیسی بنے گی۔

خیال رہے کہ 25اکتوبر 2017 کو سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دیرپا امن افغانستان میں امن سے مشروط ہے جبکہ افغانستان کی حکومت بھارت کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کررہی ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’افغانستان، بھارت کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے

وفاقی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی سرزمین پر امن قائم کیا اور دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ کامیابی سے جاری ہے جبکہ 648 کلومیٹر کی سرحد پر افغانستان کی کوئی ایک چیک پوسٹ نہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ داعش کے لیے افغانستان کا علاقہ کافی ہے، انہیں پاکستان کی ضرورت نہیں جیسا کہ افغانستان کے 45 فیصد علاقے پر داعش قابض ہے۔

واضح رہے کہ 24 اکتوبر کو امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن مختصر دورے پر اسلام آباد پہنچے تھے جہاں انہوں نے پاکستان کی اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت سے ملاقات کی تھی اور پاکستان کو خطے میں امن واستحکام اور مشترکہ اہداف کے حصول کے لیے نہایت اہم قرار دے دیا تھا۔

مزید پڑھیں: ’ٹلرسن۔غنی کی بنکر میں ملاقات افغانستان میں امریکا کی ناکامیوں کا ثبوت‘

یاد رہے کہ امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ کا یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور تعلقات کی بحالی کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل تصور کیا جارہا ہے، جیسا کہ 21 اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نئی افغان حکمت عملی کے اعلان کے دوران پاکستان پر کی جانے والی تنقید کے باعث دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ایک مرتبہ پھر انتہائی نچلی سطح پر چلے گئے تھے۔

23 اکتوبر 2017 کو امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ نے بگرام ائیر بیس پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا، جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کے خطرے سے بچنے کے لیے اپنے علاقائی اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں