یہ دو چار روز کی بات نہیں، بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے سعودی عرب ’تبدیلی‘ کی راہ میں شاید سب سے بڑی رکاوٹ تھا، اور اگر کبھی تبدیلی کا آغاز ہوا بھی تو اُس کی رفتار کچوے کی چال سے بھی سست تھی۔

لیکن گزشتہ چند ماہ میں بڑی تبدیلی آئی اور جوان ولی عہد محمد بن سلمان کے احکامات کی روشنی میں سعودی عرب میں ناصرف تبدیلی آرہی ہے بلکہ اِس کی رفتار بھی غیر معمولی طور پر بہت تیز ہے۔

گزشتہ چند ہفتوں میں ہونے والے واقعات نے جیسے سعودی عرب کی اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں زلزلہ برپا کردیا ہے۔ محمد بن سلمان کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے صرف شہزادوں پر ہی نہیں بلکہ وزراء اور بڑے کاروباری شخصیات پر بھی ہاتھ ڈالا گیا ہے۔

یہ سوال یقیناً اہم ہے کہ اِس کی وجہ کیا ہے؟ بظاہر تو وجہ کرپشن کے خلاف ایکشن ہی ہے۔ اِس کارروائی کو عمل میں لانے سے پہلے شاہی فرمان کے تحت ایک اینٹی کرپشن کمیٹی بنائی گئی جس کا سربراہ محمد بن سلمان کو بنایا گیا اور اِس کمیٹی نے انتہائی پھرتی کے ساتھ اُن لوگوں پر ہاتھ ڈالا جو بہت زیادہ طاقتور سمجھے جاتے تھے۔

اِن گرفتاریوں میں دو ارب پتی تاجر بھی شامل ہیں جو دنیا بھر میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے مشہور ہیں، اِس کے ساتھ ساتھ صالح کمال بھی پکڑے گئے جو اگرچہ شاہی خاندان سے تعلق تو نہیں رکھتے مگر سعودی عرب کے بڑے تجارتی گروپ کے سربراہ کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔

اِن گرفتار ہونے والوں میں شاہ عبداللہ کے صاحبزادے متعب بن عبداللہ بھی شامل ہیں جنہیں شاہ عبداللہ نے خود نیشنل گارڈ کا سربراہ بنایا تھا، مگر وہ اِس پوزیشن پر موجود نہیں ہیں۔

بظاہر ہونے والے ان اقدامات کو بہرحال خوش آئیند ٹھہرایا جانا چاہیے کیونکہ یہ شہزادے اور دیگر کاروباری سعودی بڑے بڑے معاہدوں میں اپنا ’حصہ‘ رکھنے کے لیے مشہور ہیں۔ تاہم، جس مالی کرپشن کو روکنے کے لیے یہ فیصلے کیے گئے ہیں، مقاصد اِس سے بھی کچھ بڑے معلوم ہوتے ہیں۔

اِن گرفتاریوں کے بعد محمد بن سلمان ایک طاقتوار شخصیت کے روپ میں اُبھرے ہیں۔ 2015 میں جب شاہ سلمان سعودی بادشاہ بنے تھے تو اُس وقت شہزادہ مقرم کو ولی عہد کے عہدے ہٹادیا گیا اور اُن کی جگہ محمد بن نائف کو لایا گیا، لیکن کچھ ہی عرصے بعد اچانک محمد بن نائف کو بھی اِس اہم عہدے سے ہٹادیا گیا اور شاہ سلمان اپنے صاحبزادے محمد بن سلمان کو سامنے لے آئے۔

اِس بات سے کسی کو اختلاف نہیں کہ سعودی عرب میں مکمل بادشاہت ہے اور حکومتی امور کو چلانے کے لیے ہر کسی کو حصہ بقدر جثہ طاقت دی گئی ہے جس میں شہزادوں سمیت مذہبی علماء اور قبائلی سربراہان کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ تاہم اِن حالیہ اقدامات کی روشنی میں ایسا لگ رہا جائے جیسے دہائیوں سے چلے آرہے معاہدوں کو ختم کرکے مکمل طاقت حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ایسا معلوم ہورہا ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان اپنے ایجنڈے کو نافذ العمل بنانے کے لیے کچھ زیادہ ہی جلدی کررہے ہیں جبکہ اُن کی یہ بھی خواہش معلوم ہورہی ہے کہ وہ پرانے لوگوں کو ہٹاکر نئے لوگوں کو سامنے لے کر آئیں۔ لیکن یہ خطرہ بہرحال موجود ہے کہ اگر ایسا کرنے میں جلدبازی کی گئی تو اندرونی حلقوں میں بے چینی پھیل سکتی ہے جس کی وجہ سے معاملات بننے کی بجائے بگڑ سکتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو ریاض اِس وقت یمن کی جنگ میں مصروف ہے، جبکہ اِس کے پڑوسی عراق اور شام کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے، جبکہ قطر اور ایران کے حوالے سے بھی سعودی عرب کے معاملات ٹھیک ہوتے نظر نہیں آرہے، ایسی صورت میں شاہ سلمان کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اندرونی معاملات کو بہت محتاط طریقے سے حل کریں۔

وہ ممالک جن کے سعودی عرب سے مضبوط تعلقات قائم ہیں خصوصاً پاکستان کو ساری صورتحال پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہاں سارے معاملات کس کروٹ ہوکر حل ہوتے ہیں۔

یہ اداریہ 7 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں