اسلام آباد: سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چینئرمین عمران خان اور سینئر رہنما جہانگیر ترین کی نا اہلی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے پٹیشن دائر کرنے والے کو یاد دلایا کہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت انہیں ایسے شواہد سامنے لانے ہیں جنہیں رد نہیں کیا جاسکے۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج جسٹس عمر عطا بندیال نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کے وکیل محمد اکرم شیخ کو بتایا کہ 'دباؤ کو جواب دہندگان کی جانب نہیں موڑا جا سکتا اس لیے پٹیشن دائر کرنے والے کو قابل ذکر کیس پیش کرنا پڑے گا'۔

خیال رہے کہ حنیف عباسی نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور سیکریٹری جہانگیر ترین کو اپنے اثاثے ظاہر نہ کرنے اور آف شور کمپنیاں رکھنے کی بنیاد پر نا اہل قرار دیے جانے کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔

مزید پڑھیں: کیا جہانگیر ترین کا کیس، پاناما کیس سے مختلف ہے؟عدالت کا سوال

اکرم شیخ نے عدالت کو پاناما پیپرز کیس میں نظر ثانی کی درخواست پر عدالت کا فیصلہ یاد دلاتے ہوئے بتایا کہ پوچھ گچھ کے حوالے سے قانون اب تیار کرلیا گیا ہے اور عمران خان کی آف شور کمپنی نیازی سروسز لمیٹد کے اعتراف کے بعد درخواست دہندگان (عمران خان) نے خود ثبوت دینے کا ذمہ اپنی جانب موڑ لیا ہے۔

جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کے آخر میں یقین دلایا کہ 'عدالت کسی کی خوشی کے لیے انصاف کا سمجھوتہ نہیں کرے گی'۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس سے بڑا ادارہ ہے، ہمیں بھی روز محشر جواب دینا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نااہلی کیس: جہانگیر ترین نے ٹرسٹ کی دستاویزات عدالت میں جمع کرادیں

جب عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت سے گزارش کی کہ زیر التوا معاملات پر ہونے والے ٹی وی پروگرامز کو بند کرایا جائے تو سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ آپ کو عدالت کے صبر کی تعریف کرنی چاہیے، انصاف پر کسی کے لیے بھی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا'۔

عدالت نے 1997 کے عام انتخابات میں 5 حلقوں سے عمران خان کی جانب کاغزات نامزدگی جمع کرانے پر الیکشن کمیشن کو طلب کرنے کی درخواست بھی رد کردی۔

2002 کے عام انتخابات میں عمران خان کا اپنی سابقہ اہلیہ کے اثاثوں کو ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ عمران خان کے اس جرم پر زیادہ سے زیادہ ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے جاتے لیکن اس کا نا اہلی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین سے 5 سوالات کے جواب طلب کرلیے

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کے آرڈیننس 1969 کے سیکشن 15(اے) اور 15(بی) جو اندرونی تجارت کے معاملات کو دیکھتا ہے پر سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے نوٹس پر سوال اٹھایا کہ کیا جہانگیر ترین قانون کی خامیوں کو چیلنج کرسکتے ہیں جبکہ انہوں نے 10 سال تک اس ہی قانون پر عمل کیا۔

اٹارنی جنرل نے اندرونی تجارت کے الزامات کے حوالے سے حقائق کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا جہانگیر ترین نے کبھی اس معاملے کو متنازع نہیں سمجھا اور انہوں نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی جانب سے 8 دسمبر 2007 کو دیے گئے شوکاز نوٹس کا جواب بھی نہیں دیا اور نہ ہی اس سے قبل قانون میں خامیوں پر اعتراضات اٹھائے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے جہانگیرترین کے ٹرسٹ کے دستاویزات پر سوالات

ان کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین معاملے کو کارروائی یا پٹیشن کے ذریعے نہیں اٹھا رہے جبکہ ان معاملات کو چیلنج کرنے کا ایک مخصوص وقت ہوتا ہے ورنہ یہ متوازی چیلنج بن جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین نے یہ نہیں کہا کہ اندرونی تجارت کا معاملہ جھوٹا ہے یا ان کے مالی یا باورچی نے ان کی جانب سے ان کیسز کا سامنا کیا بلکہ وہ تو اس قانون کے خلاف بول رہے ہیں جس میں اندرونی تجارت کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔


یہ خبر 10 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں