سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور جنرل سیکریٹری جہانگیر ترین کی نااہلی کیس کی سماعت کے دوران بنچ نے جہانگیر ترین کے ٹرسٹ بنانے پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ دیکھنا چاہتے ہیں جہانگیر ترین نے لندن میں شائینی ویو کمپنی کے لیے رقم پاکستان سے کب اور کیسے بھیجی۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جہانگیر ترین نااہلی کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے موقف اپنایا کہ لاہور ہائی کورٹ نے جہانگیر ترین کے ٹیکس معاملات ایپلیٹ اتھارٹی کو واپس بھجوا دیے ہیں اور اتھارٹی نے فریقین کو سنے بغیر فیصلہ دیا ہے جبکہ ایپیلیٹ ٹریبیونل کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر دوبارہ انکوائری کا حکم دیا ہے۔

جہانگیر ترین کے وکیل نے آف شور کمپنی سے متعلق عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے موکل پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنی آف شور کمپنی گوشواروں میں ظاہر نہیں کی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے قانونی طریقے سے لندن میں ٹرسٹ قائم کیا لیکن وہ ان کا اثاثہ نہیں بلکہ ان کے بچے اس کے ٹرسٹی ہیں۔

اس موقع پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ جہانگیر ترین اور عمران خان کے جوابات ایک جیسے ہیں، لگتا ہے ایک ہی شخص نے تیار کیے ہیں۔

مزید پڑھیں:’سیاسی مقدمات کا نقصان عدالتوں کو ہوتا ہے‘

چیف جسٹس نے کہا کہ میرا دماغ تھوڑا سست ہے چیزیں سمجھنے میں وقت لگتا ہے، مجھے سمجھایا جائے کہ آف شور کمپنی اور ٹرسٹ کیسے بنتا ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان کے خراب حالات کی وجہ سے بچوں کے بہتر مستقبل کےلیے بیرون ملک جائیدادیں بنائی جاتی ہوں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جہانگیر ترین کے ٹرسٹ قائم کرنے سے متعلق دستاویزات کہاں ہیں، جس پر جہانگیر ترین کے وکیل نے استدعا کی کہ یہ نجی دستاویزات ہیں ان کو پبلک نہ کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں:عمران خان نااہلی کیس: ’چیئرمین پی ٹی آئی کا موقف عدالتی نظام کی توہین‘

جہانگیر ترین کے وکیل کے جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں بتا دیں کہ کیا دستاویزات کو پبلک نہ کرنے کا استحقاق آپ کے پاس ہے، یہ بات آپ خود بھی سمجھ لیں اور جہانگیر ترین کو بھی بتا دیں۔

انھوں نے کہا کہ عدالت پر ریکارڈ طلب کرنے پر کوئی قد غن نہیں اس لیے اپنے موکل کو بتا دیں کہ یہ چیزیں شفاف اور کھلی عدالتوں میں ہوں گی جس کے بارے میں آپ کو پہلے ہی دن کہا تھا کہ متعلقہ ریکارڈ فراہم کیا جائے لیکن تا حال آپ کی جانب سے ریکارڈ موصول نہیں ہوا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم عوامی عہدہ رکھنے والے شخص کی دیانت داری کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں، دیکھنا چاہتے ہیں جہانگیر ترین نے لندن میں شائینی ویو کمپنی کے لیے رقم پاکستان سے کب اور کیسے بھیجی۔

مزید پڑھیں:’عمران خان اور جہانگیر ترین نا اہلی کیس کا فیصلہ ایک ساتھ کریں گے‘

چیف جسٹس نے کہا ہم تمام فریقین کو دفاع کا موقع دینا چاہتے ہیں لیکن تیکنیکی نکات کو کارروائی میں رکاوٹ نہیں بننے دیں گے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ٹرسٹ اثاثوں کو چھپانے کے لیے کیمو فلاج کا کام کرتا ہے جس پر جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ کیمو فلاج کا ان کے موکل کو کوئی فاعدہ نہیں تھا کیونکہ تمام رقم بینکنگ چینل کے ذریعے قاعدے کے مطابق ٹیکس ادا کر کے بھیجی گئی ہے۔

سکندر بشیر نے جہانگیر ترین کی جانب سے لندن کے دیہی علاقے میں 12 ایکڑ اراضی کی خرید اور اس پر مکان کی تعمیر کے حوالے سے بتایا کہ جہانگیر ترین نے اپنی ظاہر شدہ آمدنی سے 47 لاکھ پاونڈ خرچ کیے اور یہ تمام رقم ٹیکس تھارٹی کے سامنے ظاہر کی گئی تھی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگررقم قانون کے مطابق بینکنگ چینل کے ذریعے بھیجی گئی تو اس کو ظاہر نہیں کیا گیا۔

جس کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت اگلے روز تک ملتوی کر دی۔

خیال رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین پر اثاثے چھپانے اور آف شور کمپنیاں رکھنے کا الزام عائد کرتے ہوئے انھیں نااہل قرار دینے کی علیحدہ علیحدہ درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کر رکھی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں