اسلام آباد: قومی اسمبلی نے پاور ریگولیٹرز کی بجلی ٹیرف ترتیب دینے کی آزادی کم کرنے اور صارفین کو اوور بلنگ کرنے پر بجلی کے حکام کے خلاف کارروائی کرنے کی ذمہ داری تفویض کرنے سے متعلق اہم بل منظور کرلیا۔

واضح رہے کہ یہ بل حکومت نے 2013 میں مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کی روشنی میں متعارف کرایا تھا۔

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے فوری طور پر منظور کیے گئے اس بل پر سوالات اٹھائے گئے۔

اس تجویز کردہ قانون میں اہم تبدیلی اپیلٹ ٹریبیونل کا قیام ہے، جس کی سربراہ ہائی کورٹ کا ایک ریٹائرڈ جج کرے گا، جو نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹر اتھارٹی (نیپرا) کے فیصلوں پر نظرثانی کا اختیار رکھتا ہوگا۔

خیال رہے کہ موجودہ قانون کے تحت نیپرا کے فیصلے صرف عدالت میں چیلنچ ہوسکتے تھے۔

بل میں نیپرا چیئرمین کے لیے تجربے کی معیار کو بھی 15 سے 20 برس کے بجائے 10 برس کردیا گیا جبکہ عمر کی حد بھی 65 کے بجائے 62 برس کردی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: پانچ ریگولیٹری ادارے متعلقہ وزارتوں کے ماتحت

بل میں کہا گیا ہے کہ بجلی کا غلط بل جاری کرنا جرم ہوگا اور نیپرا کو اس بارے میں بااختیار بنایا گیا ہے کہ وہ معاملہ سنے، تفتیش کرے اور اس میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے، ساتھ ہی ایف آئی آر درج کرانے کے لیے مقدمہ قانون نافذ کرنے اداروں کے حوالے کرے گا۔

دی ریگولیشن آف جنریشن، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن آف الیکٹرک پاور( ترمیم) ایکٹ 2017 اپوزیشن کے احتجاج کے بعد اسمبلی سے منظور کرالیا گیا۔

اپوزیشن کی جانب سے اس بات پر احتجاج کیا گیا کہ حکومت نے بل کو ایوان میں ایک ضمیمے کے ایجنڈے کے طور پر پیش کیا اور اس پر بحث کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی.

وزیر توانائی اویس احمد لغاری نے بل پیش کرتے ہوئے حکومتی اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اوور بلنگ صارفین کے لیے ایک اہم پریشانی ہے اور اگر اس کے قانون میں مزید تاخیر کی جاتی تو صارفین کو آئندہ ماہ بھی زیادہ بل بھرنا پڑتا۔

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے بھی اس بل پر تفصیلی طور پر غور کیا تھا اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ترمیم کے ذریعے مسودہ میں ترمیم بھی کی گئی تھی۔

مجوزہ قانون میں یہ بھی تجویز دی گئی کہ کوئی کمپنی یا انفرادی طور پر لائنسن یافتہ کمپنی کا ملازم اوور بلنگ میں مجرم پایا گیا تو اس پر تین سال تک قید یا ایک کروڑ جرمانے یا دونوں سزائیں دی جائیں۔

مجوزہ قانون کے تحت صارفین اوور بلنگ سے متعلق اپنی شکایات بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے سب ڈویژنل افسر، ایگزیکٹو انجینئرز یا دیگر سینئر حکام کو جمع نہیں کرا سکے گا کیونکہ نیپرا اس معاملے کو خود اکیلا دیکھے گا، نیپرا ملک بھر کے اضلاع میں دفاتر قائم کرنے کا مجاز ہوگا جہاں صارفین تحریری طور پر اپنی شکایات جمع کرائیں گے جبکہ ہر شکایت کا 3 ماہ کے اندر فیصلہ کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: نیپرا کا کے-الیکٹرک کے خلاف کارروائی کا فیصلہ

بل کے مطابق اپیلٹ ٹریبیونل قائم کیا جائے گا، جس کی سربراہی ہائی کورٹ کے جج کریں گے، جس میں چاروں صوبوں کے ارکان بھی شامل ہوں گے۔

اپنی خود مختاری کو برقرار رکھنے کے لیے ٹریبیونل کے لیے الگ فنڈز ہوں گے اور وہ ملکی و بین الاقوامی ماہرین کی رائے لینے کا مجاز ہوگا۔

کارکردگی کی خاطر ٹریبیونل کا فیصلہ وقت پر ہوگا تاہم ریگولیٹری کی آزادی برقرار رکھنے کے لیے اگر نیپرا کی جانب سے ٹیرف کی ترتیب سے متعلق کوئی اپیل کی گئی ہے تو ٹریبیونل نیپرا کا تعین کرنے کا مجاز نہیں ہوگا۔


یہ خبر 21 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں