وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے فیض آباد انٹر چینج پر سیکیورٹی اہلکاروں اور دھرنے پر موجود مظاہرین کے درمیان تصادم کے نتیجے میں پولیس اور فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کے درجنوں اہلکاروں سمیت متعدد افراد زخمی ہوگئے۔

واضح رہے کہ تصادم اس وقت شروع ہوا جب پولیس کانسٹیبل کو گزشتہ روز آئی 8 سیکٹر 4 کی رحمانیہ مسجد میں وضو کے دوران اٹھایا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

پولیس کے مطابق مظاہرین نے سیکیورٹی اہلکاروں پر پتھراؤ کیا جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین پرلاٹھی چارج کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق مظاہرین پولیس اہلکار کو گھسیٹتے ہوئے سڑک تک لے آئے جہاں اس پر تشدد کیا گیا، اس موقع پر اطراف میں تعینات اہلکاروں نے مظاہرین کو کانسٹیبل پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا اور اس کے بچاؤ کے لیے پہنچے۔

مزید پڑھیں: 'اسلام آباد دھرنا حکومت کے خلاف سازش'

اس موقع پر مظاہرین اور سیکیورٹی اداروں کے درمیان تصادم ہوا جس میں سپرٹنڈنٹ پولیس (ایس پی)، 6 ایف سی اہلکاروں سمیت درجنوں اہلکاروں کے زخمی ہونے کے باوجود سیکیورٹی اہلکار مظاہرین کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوئے۔

ذرائع کے مطابق تاہم اس تصادم کے دوران کچھ مظاہرین بھی زخمی ہوئے۔

تصادم کے دوران کانسٹیبل کا ہاتھ اور انگھوٹا ٹوٹ گیا جبکہ دیگر اہلکاروں کو سر پر زخم آئے جنہیں طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ایکسپریس وے پر حکومت کی جانب سے لگائے گئے کنٹینرز پر مظاہرین نے چڑھ کر نعرے بازی کی تھی جبکہ تصادم کے نتیجہ میں فیض آباد اور اس کے اطراف میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہوگئی۔

اس حوالے سے ایک پولیس افسر نے ڈان کو بتایا کہ پولیس مظاہرین کے خلاف کارروائی کرنے کو تیار ہے تاہم وزیر داخلہ کی جانب سے ہمیں انتظار کرنے کا کہا گیا ہے کیونکہ حکومت اس مسئلے کے سیاسی حل پر کام کر رہی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ سیکیورٹی اہلکار اپنے دفاع اور مظاہرین کی جانب سے اٹھائے گئے اہکاروں کو بچانے کے لیے موجود ہیں۔

محمد اصغر نے مزید بتایا کہ اب تک فیض آباد کے مقام پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں 150 سے زائد افراد کو گرفتار کرکے اڈیالہ جیل بھیجا جاچکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: 'معاملے کا حل پرامن طریقے سے نکل آئے گا'

ذرائع کے مطابق مظاہرین کی جانب سے اپنے ساتھیوں کی گرفتاری پر انتقامی کارروائیوں سے بچنے کے لیے پولیس فیض آباد سے گرفتار افراد کو حوالات میں رکھنے کے بجائے اڈیالہ منتقل کر رہی ہے۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ اڈیالہ جیل میں تقریباً 175 لوگوں کو رکھا گیا ہے لیکن آئندہ 24 گھنٹوں میں تعداد 200 سے تجاوز کرسکتی ہے۔

مظاہرین کا صحافیوں پر حملہ

فیض آباد دھرنے کے مظاہرین نے دو فوٹو جرنلسٹس پر بھی حملہ کرکے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور ان سے کیمرا چھینے کی کوشش بھی کی گئی۔

دونوں صحافیوں پر اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ پولیس پر حملے کی تصاویر بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔

ڈان وائٹ اسٹار سے تعلق رکھنے والے محمد عاصم اور روزنامہ جنگ سے تعلق رکھنے والے جہانگیر چوہدری کو اس وقت خوفناک صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جب مظاہرین کے ایک ڈنڈا بردار گروہ نے فیض آباد انٹر چینج پر سیکیورٹی پر مامور تقریباً 20 پولیس اہلکاروں کو گھیرنے کی کوشش کی۔

اس موقع پر جب محمد عاصم اور جہانگیر چوہدری نے واقعے کی تصاویر بنانا شروع کی تو حملہ آوروں کی جانب سے انہیں گھسیٹا گیا اور ان سے قیمتی اشیاء بھی چھینے کی کوشش کی گئی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے اسلام آباد دھرنے کا نوٹس لے لیا

خوش قسمتی سے کچھ بزرگوں نے حملہ آوروں کو کہا کہ وہ کیمرامین کو چھوڑ دیں لیکن تب ہی جب وہ تصاویرحذف کرنے پر رضا مند ہوں۔

راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس (آر آئی یو جے) نے اس واقعے پر مذمت کی ہے۔

اپنے بیان میں آر آئی یو جے کے صدر مبارک زیب نے کہا کہ صحافیوں کو اپنے فرائض ادا کرنے سے روکنا آزادی اظہار رائے پر حملہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح کے کسی بھی عمل کو برداشت نہیں کریں گے چاہے وہ حکومت کی جانب سے ہو یا کسی انفرادی گروپ کے تحت، ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس واقعے پر نوٹس لے اور اس بات کو یقینی بنائے کے صحافیوں کو آزادانہ کوریج کی مکمل آزادی ہے۔


یہ خبر 23 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں