واشنگٹن: امریکی سیکریٹری دفاع جیمس میٹس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ چاہتی ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان مشترکہ زمینی تعلقات کو وسیع کیا جائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ اس ملک میں دہشت گرد گروپوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہیں موجود نہیں۔

پینٹاگون کے مطابق امریکی سیکریٹری دفاع چار ممالک کے دوروں کے دوران مصر، لبنان، پاکستان اور کویت کا دورہ کریں گے، اپنے پانچ روزہ دورے کے دوران وہ مشرق وسطیٰ، مغربی افریقی اور جنوبی ایشیا میں امریکی شراکت داری کو دوبارہ بحال کرنے کا عزم کریں گے۔

پیٹاگون نے مزید اعلان کیا کہ جیمس میٹس کویت جانے سے قبل 4 دسمبر کو اسلام آباد میں پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔

امریکی محکمہ کے حکام کا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی پر حمایت کے لیے اسلام آباد کو قائل کرنے کے حوالے سے کہنا تھا کہ ہم مشترکہ زمینی تعلقات چاہتے ہیں تاکہ ہم اس بات کو یقینی بنا سکیں کہ وہاں سے کوئی دہشت گرد تنظیم کام کرنے کے قابل نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: امریکی سیکریٹری دفاع آئندہ ہفتے پاکستان کا دورہ کریں گے

21 اگست کو اعلان کی گئی نئی حکمت عملی کے مطابق طالبان کو شکست دینے کے لیے کابل میں امریکی اتحادی حکومت کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔

امریکی سیکریٹری دفاع نے مصر کے دورے کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ وہ 4 دسمبر کو اسلام آباد پہنچنے کے بعد کس طرح پاکستانی سول اور عسکری قیادت کو قائل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کے لیے امریکی صدر کے مطالبے کو فروغ دینے اور مشترکہ مفادات پر تعاون کے لیے امریکا پاکستان کے ساتھ عملی تعلقات کا عزم رکھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ پاکستان کا اس طرح سے برتاؤ اس کے بہترین مفاد میں ہے۔

جیمس میٹس نے کہا کہ متعدد مرتبہ پاکستان نے اپنے ملک میں کام کرنے والے دہشت گردوں کو لے کر اس حکمت عملی کی حمایت کی ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہیں موجود نہ رہیں۔

ان سے پوچھا گیا کہ وہ ایسا کیوں سمجھتے ہیں کہ پاکستان امریکا کے ساتھ تعاون کرے گا، جس پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بہت سے فوجی اور بے گناہ شہری اس وجہ سے جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں۔

اپنے ابتدائی بیان میں ان کا کہنا تھا کہ بطور سیکریٹری دفاع پاکستان کا پہلا دورہ ہے، 21 اگست کے بعد انہوں نے نئی دہلی، کابل اور برسلز کا دورہ کیا اور بھارتی اور افغان رہنماؤں سے نئی پالیسی کے حوالے سے گفتگو کی اور اب وہ اسلام آباد جائیں گے جہاں وہ پاکستانی رہنماؤں سے گفتگو کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کے لیے مذاکرات جاری ہیں ، جس میں چار ’آر‘ بنیاد ہیں اور ان ’آر‘ کا مقصد ’مصالحت‘ ہے اور اس میں وہ کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔

گزشتہ ماہ امریکا کی سینیٹ آرمڈ سروس کمیٹی کو دیئے گئے بیان میں جیمس میٹس نے ٹرمپ کی افغانستان کے لیے نئی پالیسی کی وضاحت کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ (R4+S) سے مراد علاقائی، باہمی، مضبوط، مصالحت اور برداشت ہے۔

اس کے علاوہ حالیہ بیان میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ واشنگٹن چاہتا ہے کہ پاکستان، افغان طالبان کے ساتھ مفاہمت کو فروغ دینے کے لیے کردار ادا کرے تاہم دونوں ممالک اس مفاہمت کی مختلف وضاحت کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’پاکستان کی تمام دہشتگردوں کےخلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی جاری ہے‘

امریکا چاہتا ہے کہ وہ طالبان کو جنگ میں شکست دے تاکہ وہ مفاہمت کے عمل میں شامل ہو اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے طالبان پر پاک افغان سرحد کے دونوں جانب سے دباؤ ڈالنا چاہتا ہے، پاکستان کی فورسز، طالبان پر اپنی جانب سے حملہ کرتی ہیں جبکہ امریکی اور افغان فورسز افغانستان سے ان پر حملہ کرتی ہیں۔

تاہم پاکستان چاہتا ہے طالبان سے مذاکرات کیے جائیں اور جو مذاکرات کرنے سے انکار کرے اس پر حملہ کیا جائے۔

اس حوالے سے افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل جان نکولسن نے ایک حالیہ بیان کے بارے میں پوچھا کہ وعدوں کے باوجود پاکستان نے اپنی پالیسیوں کو تبدیل نہیں کیا اور وہ طالبان کے گروپوں کے ساتھ تعلقات رکھے ہوئے ہے۔

اس سوال کے جواب میں جیمس میٹس نے کہا کہ انہوں نے پاکستانی قیادت کی جانب سے سنا ہے کہ وہ دہشت گردی کی حمایت نہیں کرتے، لہٰذا مجھے امید ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے اپنے فوجی جوانوں اور بے گناہ شہریوں کی قربانیاں دی ہیں، لہٰذا ہم امید کرتے ہیں وہ اپنے بہتر مفاد اور خطے میں امن و استحکام کے لیے نظر ثانی کرے گا۔


یہ خبر 03 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں