اسلام آباد: ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے بعد پاکستانی حکام اور عالمی مالیات فنڈ (آئی ایم ایف) کے مابین ملکی معیشت پر بات چیت کا پہلا دور اختتام پزیر ہوگیا جبکہ دنوں فریقین 2 روز بعد معاملات کو حتمی شکل دیں گے۔

واضح رہے کہ جمعہ کو روپے کی قیمت میں کمی کا فیصلہ سامنے آیا تھا جس کے بعد ڈالر کی قدر میں اچانک 3 روپے اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔

بعدِ ازاں پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے درمیان معاشی پالیسی سے متعلق بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے اعلیٰ عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ‘مرکزی بینک نے کئی مہینوں بلکہ کئی برسوں تک مارکیٹ کی توقعات کو پورا کرنے کے لیے حالیہ دنوں میں روپے کی قدر میں کمی کے بعد شرح مبادلہ (ایکسچینج ریٹ) کے تبادلے کا ارادہ کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے جمعہ 8 دسمبر کا انتخاب کیا گیا تھا تاکہ 2 ماہ قبل متعارف کرائے گئے نئے بین الاقوامی بانڈز سے حاصل ہونے والے 2 ارب 50 کروڑ ڈالر کے اثاثون کو یقینی بنا یا جائے۔

یہ بھی پڑھیں : مارکیٹ میں ہیجانی کیفیت کے بعد ڈالر کی قدر 107 روپے ہوگئی

ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کو پاکستان کے بیرونی سیکٹرز کی کارکردگی پر خدشات لاحق ہیں جبکہ حکومتی انتظامیہ کے دعوے تصویر کا دوسرارخ پیش کررہے ہیں، تاہم اس حوالے سے آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام کے مابین بات چیت کا سلسلہ جاری ہے اور 11 دسمبر کو ممکنہ طور پر آئی ایم ایف پالیسی کو حتمی شکل دے کر اس پر ردعمل اور تحفظات کے اظہار کے لیے پاکستانی حکام کو پیش کریں گے۔

واضح رہے کہ پاکستان کی جانب سے سیکریٹری خزانہ شاہد محمود آئی ایم ایف کی رپورٹ کا جائزہ لیں گے جبکہ آئی ایم ایف کی ٹیم ہارالڈ فنگر کی سربراہی میں لاہور کا دورہ کریں گی جہاں وہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت دیگر صوبائی عہدیداروں، آزاد مبصرین، کارروباری اداروں کے محققین، اور نجی جامعات کے نمائندوں سے ملاقاتیں کریں گے۔

حکام نے امید ظاہر کی کہ کرنسی ایڈجسمنٹ سے نجی (تجارتی) بینکوں میں موجود غیر ملکی کرنسی ہولڈنگ میں نمایاں فرق آئے گا جن کا حجم اس وقت 6 ارب ڈالر تک ہے تاہم اسے اپنی پرانی سطح پر لانے میں مدد ملے گی۔

ذرائع نے بتایا کہ دونوں فریقین کے درمیان پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے حوالے سے متعلق بات چیت ہو چکی ہے۔

یہ پڑھیں : اے ٹی ایم فراڈ: ایف آئی اے نے مشتبہ شخص کو گرفتار کرلیا

خیال رہے کہ سی پیک میں مختلف نوعیت کے ترقیاتی پراجیکٹس کا تخمیہ 23 ارب ڈالر ہے جس میں 17 ارب ڈالر توانائی اور 6 ارب ڈالر شاہرواں کی تعمیر کے لیے مختص ہیں۔

آئی ایم ایف اور وزارتِ خزانہ کے مابین بات چیت کے آخری دور میں آئی ایم ایف ڈائریکٹر برائے مشرقی وسطیٰ اور وسطی ایشیاء جھاد ازعود بھی شریک ہو نگے۔

خیال کیا جارہا ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے بھی آئی ایم ایف مشن کی ملاقات کرائی جائے گی جس میں پالیسی پوزیشن میں حائل خلا پر بھی بات چیت کی جائے گی۔

اس ضمن میں پاکستان سال 2023 تک آئی ایم ایف کے ‘پوسٹ پروگرام مانیٹرنگ (پی پی ایم)’ کے تحت مقررہ کردہ اہداف سے زیادہ قرض لیتا رہے گا۔

پاکستان نے پی پی ایم کے تحت خصوصی منتقلی اختیار (ایس ڈی آر) کے ذریعے 1 ارب 40 کروڑ ڈالر وصول کرنا تھے تاہم اب اس کی حد بڑھ کر 4 ارب 30 کروڑ ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔

مزید پڑھیں : ڈالر کی خریداری میں اضافہ

جب سیکریٹری خزانہ شاہد محمود سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے وفد کے سامنے ملکی معیشت پر مفضل جائزہ پیش کیا جو مثبت اقتصادی اعشاریوں کی جانب ٹھیک رفتار سے بڑھ رہے ہیں۔

سیکریٹری خزانہ کے مطابق پاکستان سوشل پروٹیکشن اور ترقی پر اخراجات کے بغیر مالی استحکام کا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے جبکہ حکومت ملکی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کی ترقی کی شرح کو 6 فیصد تک پہنچانے کے لیے کوشاں ہے۔

شاہد محمود نے مزید بتایا کہ آئی ایم ایف وفد سے یورو اور سکوک (اسلامی) بانڈ کی حالیہ کامیابی پر بات چیت ہوئی۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 9 دسمبر 2017 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں