پشاور: خیبر پختونخوا (کے پی کے) میں حالیہ دنوں میں دہشتگردی کی لہر کے بعد صوبائی اسمبلی کے اراکین پارلیمنٹ نے عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات اور دفاعی اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھا دیئے۔

ڈپٹی اسپیکر پروفیسر مہر تاج روغانی کی صدرات ہونے والے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں قانون سازوں کا کہنا تھا کہ ریاست عوام کی جان اور مال کے تحفظ کے سلسلے میں مکمل ناکامی کا شکار ہے، عسکریت پسند جب چاہیں حساس اہداف کو نشانہ بنا کر انتشار پھیلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

صوبائی اسمبلی کے اراکین نے اجلاس میں پولیس اور وزارتِ داخلہ سمیت دیگر انتظامی سیکریٹریز کی غیر حاضر پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جہاں صوبے میں امن و امان کی صورتحال پر بحث جاری تھی۔

یہ پڑھیں: پشاور حملہ: غیر مسلح دہشت گرد کو مارنے کی تحقیقات کا مطالبہ

ایوان میں اپوزیشن لیڈر مولانا لطف الرحمٰن نے کہا کہ حکمران ملک میں امن و امان کی فضاء قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں جبکہ شہری بڑی تعداد میں قربانی دے چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ‘ملکی سیکیورٹی کے ذمہ داران کو یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ان کی پالیسی سے ملک میں دہشتگردی کو فروغ ملا یا کمی آئی؟‘

مولانا لطف الرحمٰن نے کہا کہ پشاور میں زراعت کے تربیتی مرکز (ایگری کلچر ڈاریکٹوریٹ) پر حملے سے واضح ہو گیا کہ دہشتگرد جہاں چاہیں دہشت گرد کارروائی کر سکتے ہیں۔

آئینی ترمیم کے تحت دہشت گروں کے خلاف فوری ٹرائل کے لیے بنائی گئی فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق مولانا لطف الرحمان نے کہا کہ سیاستدان فوجی عدالتوں کے قیام کو کھلے دل سے تسلیم نہیں کرتے لیکن جس مقصد کے لیے فوجی عدالتیں بنیں ان سے مقاصد پورے نہیں ہو رہے۔

یہ بھی پڑھیں :پشاور: دہشت گردی کے حملے میں بچ جانے والے خاندان کی کہانی

انہوں نے کہا کہ انسدادِ دہشتگردی کے لیے تیار حکمت عملی کی خامیوں کی نشاندہی کرکے فوری طور پر ضروری اقدامات کیے جائیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ‘ہمیں مزید جانیں قربان کرنے کے بجائے دیکھنا ہو گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟’

انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قراردینے پر سخت تقنید کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کا فیصلہ مسلمانوں پر ایک کاری ضرب کی مانند ہے’۔

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے اجلاس کے دوران کہا کہ دہشتگردی میں اضافہ ہونے سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پشاور، باچاخان یونیورسٹی چارسدہ کے بعد پشاور کی ایگری کلچر یونیورسٹی دہشت گردوں کا ہدف بننے والی تیسری درسگاہ ہے۔

اے این پی رہنما نے کہا کہ اے پی ایس پر حملے میں شہید ہونے والے معصوم بچوں کے والدین اب بھی انصاف کے منظر ہیں اور تاحال جوڈیشل انکوائری کا تقاضہ کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں : سانحہ اے پی ایس: عدالت نے ریکارڈ سمیت تفتیشی افسر کو طلب کرلیا

اے این پی لیڈر کا یہ بھی کہنا تھا کہ دفاعی ادارں کی جانب سے شرپسند عناصر، بھتہ خواروں اور اغواکاروں کے خلاف متعدد کریک ڈاؤن کے باوجود شہریوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔

انہوں نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘اگر کابل نئی دہلی کے ساتھ اپنے روابط بڑھا رہا ہے تو اسلام آباد کو کیا پریشانی ہے’

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو افغانستان کے داخلی معاملات پر خود کو دور رکھنا چاہئے جبکہ ماضی میں بدقسمتی سے پاکستان نے امریکا کے ساتھ ملکر افغانستان میں ‘جہاد’ کے نام پر لڑائی کی۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی نگہت اورکزی نے اس موقع پر کہا کہ بد قسمتی سے دہشت گرد ایک مرتبہ پھر صوبے میں سر اٹھا رہے ہیں۔

انہوں نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معتلقہ ادارے حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں اور کالعدم تنظمیوں کی جانب سے چندہ جمع کرنے پر کیوں خاموش ہیں۔

بعدِ ازاں ڈپٹی اسپیکر نے کورم مکمل نہ ہونے پر اجلاس پیر تک کے لیے ملتوی کردیا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 9 دسمبر 2017 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں