پشاور ہائی کورٹ نے کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کے تفتیشی افسر کو سانحہ آرمی پبلک اسکول سے متعلق تمام ریکارڈ کے ہمراہ طلب کرلیا۔

2014 کو ہونے والے سانحہ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) میں جاں بحق ہونے والے طالب علم کے والد کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی، جس کی سماعت چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ یحییٰ آفریدی اور جسٹس روحیل امین خان سمیت ایڈیشنل جج جنرل قیصر علی شاہ نے کی۔

درخواست کی سماعت کے دوران معزز ججز نے کہا کہ کیس کی تحقیقات مکمل ہوچکی ہیں مگر درخواست گزار کا کوئی بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا۔

جس پر تین رکنی بینچ نے ڈی ایس پی انویسٹی گیشن کو اگلی سماعت پر عدالت میں ہیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے میں جاں بحق ہونے والے طالب علم عمر خان کے والد فضل خان نے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کی ایف آئی آر سی ٹی ڈی تھانے میں مجرمانہ غفلت کی دفعات کو شامل کر کے درج کروائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ میں خود کئی بار اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے تھانے گیا مگر وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: اے پی ایس سانحے کو ایک سال مکمل

درخواست گزار کے وکیل قاضی محمد انور نے عدالت کو بتایا کہ میرے مؤکل نے تفتیشی اداروں کے سامنے پیش ہوکر بیان ریکارڈ کروانے کی درخواست کی کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ واقعے کی ذمہ داری سینئر افسران پر عائد ہوتی ہے۔

حکومتی وکلاء ایڈووکیٹ جنرل عبدالطیف یوسفزئی اور اے اے جی قیصر علی شاہ نے کہا کہ ’تفتیش مکمل ہوچکی ہے اس لیے درخواست گزار کا بیان اب ریکارڈ نہیں کیا جاسکتا‘۔

وکیلوں کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے سی ٹی ڈی کے تفتیشی افسر کو تمام دستاویزات کے ہمراہ اگلی سماعت پر طلب کرلیا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ٹی پی کی آرمی پبلک اسکول حملے کے ماسٹر مائنڈ کی ہلاکت کی تصدیق

دریں اثنا تین رکنی بینچ نے سانحہ اے پی ایس میں شہید ہونے والے بچے اسفند خان کے والد کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایڈووکیٹ جنرل اجون خان کو ہدایت کی کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کو کہا جائے کہ سانحہ اے پی ایس سے متعلق ہونے والی تمام تحقیقات پبلک کی جائیں اور بتایا جائے کہ الرٹ جاری ہونے کے باوجود اسکول پر کس طرح حملہ ہوا۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول میں 132 طالب علموں سمیت 144 افراد کو دہشت گردوں نے قتل کیا، عدالت نے اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا مگر کسی ادارے نے سنجیدگی سے کام نہیں کیا۔


یہ خبر 10 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں